خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ (ایل ار ایچ) کی انتظامیہ نے 31 مارچ اور یکم اپریل کی درمیانی شب ہسپتال کے کرونا (کورونا) کمپلیکس میں سات مریضوں کی مبینہ طور پر بیڈز اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے موت واقع ہو جانے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔
ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہسپتال انتظامیہ نے اس واقعے کی انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔ انکوائری کمیٹی میں سینئیر پروفیسرز اور شفٹ مینیجر شامل ہیں جو 48 گھنٹے میں رپورٹ متعلقہ شعبے کو پیش کریں گے۔
محمدعاصم نے بتایا: ’ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر نے کرونا کمپلیکس کے انچارج سے بھی 48 گھنٹے کے اندر اس رات ہونے والے واقعے کے حوالے سے تمام تفصیلات طلب کر لی ہیں۔‘
پشاور کا لیڈی ریڈنگ ہسپتال صوبے کا سب بڑا سرکاری ہسپتال ہے اور کرونا وائرس کی موجودہ صورت حال میں اس کو مکمل طور پر کرونا کے مریضوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے تاہم صرف شعبہ ایمرجنسی میں دوسرے مریضوں کو دیکھا جاتا ہے۔ ہسپتال کے کرونا کمپلیکس کی انچارج ڈاکٹر سلمیٰ زیب نے ایک خط ہسپتال انتطامیہ کے نام لکھا ہے جس میں اسی رات ہونے والے واقعے ک تفصیل بتائی گئی ہے۔
اس خط جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، میں لکھا گیا ہے کہ اس رات 10 نئے کرونا کے مریضوں کو داخل کروایا گیا جن میں سات انتہائی نگہداشت وارڈ میں بیڈز نہ ہونے کی وجہ سےموت کے منہ میں چلے گئے۔ خط کے مطابق ایک مریض پلمونالوجی وارڈ جو کرونا مریضوں کے لیے مختص ہے، میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کیونکہ وہاں پر آکسیجن دستیاب نہیں تھی۔ میڈیکل ٹیم نے مریض کو کرونا کمپلیکس شفٹ کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
خط میں کرونا کمپلیکس کی انچارج نے انتظامیہ کو تجاویز بھی دی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں بیڈز کی تعداد بڑھائی جائے۔ ہمیں اس پلان سے بھی آگاہ کیا جائے کہ اگر بیڈز کم پڑ جائیں تو اس صورت میں کرونا کمپلیکس انتظامیہ کو کیا کرنا ہوگا؟
یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ پلمونالوجی وارڈ میں مزید مریضوں کو اس وقت تک داخل نہ کیا جائے جب تک وہاں تمام ضروری سہولیات فراہم نہ کر دی جائیں۔
یہ واقعہ کیسے پیش آیا ؟
خط میں لکھا گیا ہے کہ یہ واقعہ 31 مارچ اور یکم اپریل کی درمیانی شب پیش آیا لیکن اس کے بعد دو اور تین اپریل کی درمیانی شب بھی ہسپتال کے کرونا کملیکس کو آکسیجن پریشرمیں کمی کا سامنا تھا۔ اس رات ڈیوٹی پر موجود ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرونا مریضوں کے لیے بیڈز اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مبینہ اموات آکسیجن پریشر کی کمی سے ایک رات پہلے ہوئی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ تین اپریل کی رات کے واقعے سے دو دن پہلے کرونا کمپلیکس میں موجود ڈاکٹروں نے ہسپتال انتظامیہ کو خبردار کیا تھا کہ کمپلیکس میں آکسیجن کمی کا سامنا ہے اور خصوصاً پلمونالوجی وارڈ میں 20 مریضوں کے لیے آکسیجن کی گنجائش ہے لیکن یہاں پر 30 مریضوں کو رکھا گیا ہے۔
ڈاکٹرکے بقول: ’انتظامیہ کو متنبہ ہونے کے باوجود اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور یوں مبینہ طور پر آکسیجن اور بیڈز ناکافی ہونے کی وجہ سے کرونا مریضوں کی اموات ہوئیں۔ اس کے دو دن بعد آکسیجن پریشر کا مسئلہ سامنے آیا۔ آکسیجن پریشر کا مسئلہ جس رات پیش آیا اسی رات ہم نے وینٹی لیٹرز پررکھے گئے سات مریضوں کو ہسپتال میں موجود نئے بلاک کو شفٹ کردیا۔ اس کے ساتھ ہی طبی عملے کو بھی وہاں منتقل کر دیا گیا۔ اس اقدام کی بدولت اس رات کسی کی موت نہیں ہوئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے بتایا کہ کرونا مریضوں کی موت کا واقعہ آکسیجن کے پریشر میں کمی کے مسئلے سے کچھ دن پہلے کا ہے اور اس کو آکسیجن کی کمی مسئلے کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ایل ار ایچ میں کرونا کے صرف تشویش ناک حالت والے مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہسپتال میں اموات کی شرح بھی زیاد ہ ہے۔ پورے صوبے میں کرونا مریضوں کی دیکھ بھال کا انحصار ایل ار ایچ پر ہے ۔ آئی سی یو میں بیڈز کی تعداد بھی بڑھائی ہے لیکن مریض بہت زیادہ ہیں۔‘
ایل ار ایچ کے چھ اپریل کے صبح 11 بجے کے اعدادو شمار کے مطابق ہسپتال میں کرونا کے مجموعی طور پر 259 مریض داخل ہیں جب کہ کرونا کے لیے مختص بیڈز کی تعداد 302 ہے۔ ان 250 مریضوں میں 22 وینٹی لیٹرز پرہیں۔ ہسپتال میں وینٹی لیٹرزکی مجموعی تعداد 68 ہے جس میں 53 وینٹی لیٹر کرونا کے مریضوں کے لیے مختص ہیں۔
بیڈز اور آکسیجن کی کمی سے سے مبینہ اموات پر صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ یہ حقیقت نہیں ہےکہ بیڈزاور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مریضوں کی اموات واقع ہوئیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان اموات پر ہسپتال انتظامیہ نے انکوائری کا جو حکم دیا تھا کیا اس کی رپورٹ آ گئی ہے اور اگرآ گئی ہے تو اسے ہمارے ساتھ شیئر کیا جائے۔ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ’اس کو چیک کریں گے۔‘
یاد رہے گذشتہ سال دسمبر میں صوبے کے دوسرے بڑے ہسپتال خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں بھی آکسیجن کی سپلائی بند ہونے کی وجہ سے کرونا کے سات مریض ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ہسپتال کے اعلیٰ افسروں سمیت آکسیجن پلانٹ کے مینیجر اور دوسرےعملے کو معطل کر دیا گیا تھا۔