اقوام متحدہ کی ایک جامع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے مستقبل کی بہتری کے لیے دنیا کو بڑے پیمانے پر سماجی اور معاشی تبدیلیوں سے گزرنا ہو گا۔
ہمیں اپنے اناج اگانے، سفر کرنے کے طریقوں اور دیہی علاقوں کے بارے میں دوبارہ سے سوچنا ہو گا۔ ایسا کرنا شاید مشکل ہو لیکن اس کے بیش بہا فوائد ہیں۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ دنیا کے سماجی اور معاشی نظام کو ایک بڑی تبدیلی کے عمل سے گزرنا ہوگا تاکہ اس فطری دنیا کو بحال کیا جا سکے جو انسانی زندگی کے بقا کے لیے ناگزیر ہے۔
بین الاقوامی سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ صرف معاشی نمو پر دی جانے والی توجہ کو ختم کرنا ہو گا۔ ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ امیر ممالک میں صارفین کو کم کھانا ضائع کرنا ہوگا، جبکہ عالمی رہنماؤں کو شہروں میں سبزے کا رقبہ بڑھانے، ماحول کو جانوروں کے لیے سازگار بنانے اور وسائل کے بے جا استعمال کو بھی روکنا ہو گا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے حیاتیاتی تنوع پر مبنی پہلی جامع رپورٹ میں ان اقدامات پر بھی زور دیا گیا ہے:
باغبانی اور درخت لگانے کی عادت کی بحالی
کم رقبے پر زیادہ اناج اگانا
غیر قانونی طور پر درختوں کی کٹائی اور مچھلیاں پکڑنے کے خلاف کارروائی
میرین پروٹیکٹیڈ علاقوں میں اضافہ ( یہ ایسے علاقے ہوتے ہیں جہاں انسانوں کے عمل دخل کو کم کر کے قدرتی ماحول کو پروان چڑھایا جا تا ہے)
آلودگی میں کمی اور ماحول میں دھاتوں اور گندے پانی کے امتزاج پر قابو
اس تحقیق کو امریکہ، روس اور چین سمیت 130 ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ تحقیق میں ایسا لائحہ عمل دیا گیا جس سے زمین پر جاری معدومیت کی عظیم لہر کو روکا جا سکتا ہے جس سے حشرات الارض، نباتات، زندگی اور مچھلیوں کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ دنیا بھر کے سائینسدانوں کی جانب سے متفقہ مطالبہ ہے لیکن ماہرین اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ انرجی جائینٹس جو قوانین کے نہ ہونے کا فائدہ اٹھا کر منافع کماتے ہیں وہ اس صورتحال کے تبدیل ہونے کی مخالفت کریں گے۔
جانداروں کی مختلف اقسام ایک ناقابل بیان سطح پر، ماضی کے مقابلے میں دسیوں ہزاروں گنا تیزی سے معدومی کا شکار ہیں۔
بڑے پیمانے پر کی جانے تبدیلیوں کے بغیر یہ نقصان بد سے بدتر ہوتا رہے گا اور 2050 تک انسانی بقا کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ غربت اور بھوک کے خاتمے، صحت کی بہتر سہولیات اور ماحولیاتی تبدیلی کی شدت کو کم کرنے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
انسانی عمل دخل کے نتیجے میں چرند پرند اس پیمانے پر پہلے کبھی معدومیت کے خطرے کا نشانہ نہیں رہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ تقریباً دس لاکھ حیاتیاتی انواع معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں، اور اگر اس بارے میں فی الفور اقدامات نہ لیے گئے تو چند دہائیوں میں ان کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
تحقیق میں کہا گیا کہ جب تک تمام ممالک کی جانب سے اس سلسلے میں مشترکہ کوششیں نہیں کی جاتیں تب تک خشکی اور پانی میں رہنے والے جانداروں کی 40 فیصد تعداد کے معدوم ہونے کا شدید خطرہ ہے۔
پانچ لاکھ سے زیادہ حیاتیاتی اقسام مسکن نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ عرصہ محفوظ نہیں رہ سکتیں۔
ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی سائینسی پالیسی پلیٹ فارم کی رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب برطانوی حکومت کی جانب سے چند دن قبل ہی ماحولیاتی تبدیلی کی شدت کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
تحقیق تحریر کرنے والوں کی پیرس میں ہونے والی ملاقات میں گذشتہ 50 برس کے دوران کی جانے والی انڈسٹریل فارمنگ اور مچھلی کے شکار کو فطرت کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ توانائی کے لیے تیل، گیس اور کوئلے کے استعمال کو بھی ماحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔
فصلوں، جانوروں کی افزائش کے لیے جنگلات کی کٹائی، سڑکوں کی توسیع، شہروں کی آبادکاری، جانوروں اور مچھلیوں کے شکار، آلودہ پانی اور متصرف انواع کی آمد نے زمین کے 75 فیصد رقبے کو استعمال کر لیا ہے۔
ماحول کے حوالے سے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ اس تحقیقاتی رپورٹ کو ایک ’ویک اپ کال‘ کے طور پر لیا جانا چاہیے اور لوگوں کو اپنے اناج اگانے کے طریقوں پر غور کرنا ہو گا۔ گرین پیس برطانیہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جان ساؤین کا کہنا ہے: ’ہمیں قدرت کے خلاف اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے زمین اور سمندر کے استعمال کے اپنے طریقوں کو بدلنا ہو گا۔‘
ان کی جانب سے حکومت برطانیہ پر زور دیا گیا کہ وہ بڑے پیمانے پر شجر کاری کرے، سمندر کے ساحلی علاقے کو محفوظ بنایا جائے، زیر زمین پانی کی بلند سطح والے علاقوں کو بحال کیا جائے، اور کھانے میں گوشت کے بجائے سبزیوں کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
کیو کے رائل بوٹانک گارڈنز کے الیگزینڈر انٹونیلی کے مطابق: ’ہمیں بڑے پیمانے پر منظم کوشش کرنی ہوگی کہ اس سماج کو ہر سطح پر بدلا جا سکے۔‘
تحقیق میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی کہ ہم اس کو صرف قابو نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں اس رجحان کو حیاتیاتی انواع کے لیے مقامی، علاقائی اور عالمی طور پر پہلے کی سطح پر لے کے جانا ہو گا۔
ان کی جانب سے کہا گیا کہ گذشتہ یو این کنونشن میں وہ مقاصد جو 2020 تک حاصل کرنے کا تہیہ کیا گیا تھا وہ مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں اس سے سیکھنا ہو گا کہ ہم پہلے والی غلطیوں کو دوبارہ نا دہرایں۔ ہم یہ بار بار نہیں کر سکتے۔ اس بار اس کو آخری اور کامیاب کوشش بنانا ہو گا۔
ایکسٹنٹ ریبیلین کی لورنا گرین وڈ کہتی ہیں: ’ہمیں اس بارے میں دوبارہ سوچنا ہو گا کہ ہم کیسے اناج اگایں، سفر کریں اور دیہی علاقے کا خیال رکھنا ہو گا۔ یہ مشکل کام لگتا ہے لیکن اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔‘
لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوربن کا کہنا ہے:’ یہ زمین پر معدومی کی چھٹی لہر ہے لیکن یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ یہ ہماری وجہ سے ہی ہوا ہے، جلد عمل کے ساتھ ہمیں اس کو روکنا ہو گا۔ ہمیں اپنی معیشت کو اس طرح سے ترتیب دینا ہو گا جس میں انسانوں اور زمین دونوں کے مفاد کو مدنظر رکھا جائے۔ ‘
برطانوی سائینسدان سر رابرٹ واٹسن کہتے ہیں: ’یہ تحقیق صرف انسانوں اور پودوں کے لیے نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے ہے جو انسانوں کے لیے رہنا مشکل کر رہی ہے۔ ہم اپنے اناج، پانی، انسانی صحت اور سماجی نظام حتی کہ انسانیت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور ترقی پزیر ممالک میں سب سے زیادہ بوجھ افلاس کے شکار لوگوں پر پڑ رہا ہے۔ ‘
’تحقیق ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ کوشش شروع کرنا کبھی تاخیر سے نہیں ہوتا لیکن اب ہمیں اس کوشش کو مقامی سے عالمی سطح تک ایک ساتھ کرنا ہو گا۔ سب کچھ پہلے جیسا چلتے رہنا ایک سانحے سے کم نہیں ہو گا۔‘
سررابرٹ کے مطابق پیسے کی ریل پیل کسی ملک میں دولت کا پیمانہ نہیں بلکہ قدرتی وسائل، سماجی اور انسانی سرمایہ اس سے بہتر ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ چرند پرند کے مسکن کو بہت خطرہ لاحق ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 2050 تک جنگلات پرمزید دیڑھ کروڑ میل سڑکوں کی تعمیر کی جائے گی۔
ماحولیاتی سائینسدان جوزف سیٹیلے کا کہنا ہے کہ انفرادی سطح پر کھانے پینے اور توانائی کے استعمال کے طریقوں کو بدل کے اس میں مدد کی جا سکتی ہے۔
بائیولوجسٹ تھامس لوجوائے جنہیں حیاتیاتی تنوع کا ’ گاڈ فادر‘ کہا جاتا ہے کہتے ہیں: ’ہم آئیندہ آنے والے کروڑوں انسانون کو زمین کا ایک انچ برباد کیے بغیر بھی خوراک فراہم کر سکتے ہیں۔‘
یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ تحقیق چین میں اگلے سال ہونے والی ملاقات کے لیے مقاصد کے تعین میں مددگار ثابت ہو گی۔