مئی 2020 میں بلوچستان کے ضلع کیچ میں گھر میں گھس کر ملک ناز نامی خاتون کو قتل اور ان کی بچی برمش کو زخمی کرنے کے جرم میں گرفتار دو ملزمان میں سے ایک کو سزائے موت اور دوسرے کو عمر قید کی سزا سنادی گئی ہے۔
سیشن جج تربت محمد رفیق لانگو نے جمعرات کو ملک ناز قتل کیس کا فیصلہ سنایا۔
مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر ملزم باسط ولد فیض اللہ کو سزائے موت اور ملزم الطاف ولد مزار کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
دوسری جانب ملزم باسط کو کلاشنکوف برآمد ہونے پر 13 ای کے تحت مزید پانچ سال قید اور ملزم الطاف کو پستول برآمد ہونے پر مزید تین سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔
یہ واقعہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے آٹھ کلومیٹر دور ڈنک کے علاقے میں پیش آیا تھا، جہاں مذکورہ مجرمان نے گھر میں گھس کر اسلحے کے زور پر نقدی، موبائل اور سونے کے زیورات دینے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم خاتون خانہ ملک ناز کی مزاحمت پر ان پر فائرنگ کردی گئی، جس کے نتیجے میں خاتون ہلاک اور ان کی بیٹی برمش زخمی ہوگئی تھی۔
بچی کے قریبی عزیز رحمت بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عدالتی فیصلے کے حوالے سے کہا کہ مجرمان کے ایک اور ساتھی، جس نے باسط کو فرار ہونے میں مدد دی تھی، کو بری کردیا گیا ہے، جس نے دوران تفتیش اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا۔
رحمت نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’چونکہ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ جان بوجھ کر ایک حملہ کیا گیا، لہذا ملزم کو بری کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔‘
یاد رہے کہ واقعے میں شامل تفتیش ملزم سمیر ولد سبزل کے خلاف پانچ الگ الگ مقدمات درج کیے گئے تھے، تاہم انہیں عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملزم سمیر کی طرف سے ایڈووکیٹ مہراللہ گچکی نے پیروی کی جبکہ استغاثہ کی طرف سے جاڑین دشتی ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
رحمت بلوچ نے کہا کہ ’وہ اس وقت مطمئن ہوں گے جب تک ان کی رشتہ دار ملک ناز کے قتل میں ملوث تمام ملزمان کو سزا نہیں مل جاتی ہے، کیوں کہ ہمارا نظام ہے کہ مجرم سیشن کورٹ کے بعد ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ تک جاکر خود کو بری کروالیتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جس دن ہم سن لیں گے کہ جس کو سزائے موت دی گئی، اس فیصلے پر عمل درآمد ہوگیا اور دوسرا مجرم جیل میں ہے، اس وقت ہم مطمئن ہوجائیں گے کہ ہمیں انصاف مل گیا۔‘
مذکورہ واقعے میں زخمی ہونے والی بچی برمش کے نام سے اس وقت ضلع کیچ میں ایک احتجاجی تحریک شروع ہوگئی تھی، جو بعدازاں پورے صوبے میں پھیل گئی تھی۔
اس واقعے کے بعد آل پارٹیز کیچ کے زیر اہتمام تربت میں ایک بڑا احتجاج کیا گیا، جس میں خواتین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس گروہ کی صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی کے ساتھ تصاویر بھی وائرل ہوئیں، جس کے بعد الزام عائد کیا گیا کہ حکومت میں شامل لوگ جرائم پیشہ لوگوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔
تاہم ظہور بلیدی نے جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو بھی اس واقعے میں ملوث ہوگا، اسے قانون کے مطابق سزا ملے گی۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیا لانگو نے بھی لواحقین سے تعزیت کرنے کے لیے 31 مئی 2020 کو تربت کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’قانون سے کوئی بالاتر نہیں، ملزمان کا تعلق جس سے بھی ہو ان کو سزا ملے گی اور اس سلسلے میں کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔‘