حال ہی میں نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) سے ادھوری گریجویشن مکمل کرنے والی مریم عمر کے آرٹس میں شادی شدہ زندگی کے مسائل کا اثر نظر آتا ہے۔
34 سالہ مریم نے پاؤں میں چوٹ لگنے کی وجہ سے 10 سال قبل این سی اے سے اپنی پڑھائی کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا۔ وہ بعد ازاں نوکری کرتی رہیں لیکن پھر 2016 میں ان کی شادی ہو گئی۔
مریم کی شادی کا تجربہ اچھا ثابت نہیں ہوا اور ان کی شادی چار ماہ ہی چل سکی۔ ان کا کہنا ہے کہ جلد بازی میں شادی کی وجہ سے رشتہ چل نہیں سکا۔
شادی ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد انہوں نے پھر سے این سی اے میں اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔
مریم کے مطابق ان کی اپنے شوہر سے پہلی لڑائی گول روٹی نہ پکانے پر ہوئی۔ مریم کے آرٹس میں ان کی شادی شدہ زندگی کے تلخ تجربے کی جھلک ملتی ہے جیسے کہ وہ ایک پرفارمنس میں گول روٹی پکانے کی بھرپور کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس پرفارمنس میں انہوں نے دکھایا کہ انہیں روٹی پکانی نہیں آتی لیکن وہ بار بار کوشش کرتی ہیں۔
ایک اور پرفارمنس میں انہوں نے ایک ایپرن اور فراک نما لباس پہنا ہے جس پر وہ گول روٹیوں کی سلائی کر رہی ہیں۔
اس پراجیکٹ کے بارے میں مریم کا کہنا تھا کہ ’لباس آپ کی دوسری جلد ہوتی ہے اور میں دکھانا چاہتی تھی کہ میں ان روٹیوں کو اس کے اوپر سی رہی ہوں تاکہ یہ مجھ میں سما جائیں اور مجھے روٹی پکانے کا ہنر آجائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے ایک اور منصوبے میں اپنی شادی کے لہنگے کو ادھیڑ ڈالا۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے وہ لہنگا ادھیڑ رہی تھیں ویسے ویسے ان کی تلخ یادیں تازہ ہو رہیں تھیں لیکن ادھیڑتے ہوئے سلائیوں کے سوراخ، چھپائی وغیرہ کے نشان لہنگے پر باقی رہ رہے تھے۔
’یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک غیر صحت مند شادی سے باہر نکلنے کے باوجود اس کی تلخ یادیں آپ کے دل و دماغ پر رہ جاتی ہیں جنھیں ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔‘
مریم نے اپنے حالیہ تھیسس میں 26 چوپنگ بورڈز کا استعمال کیا ہے، جن پر باورچی خانے میں استعمال ہونے والے برتنوں کے حوالے سے تحریر درج تھی۔
اس میں انہیں معاشرے کی اس سوچ سے تشبیح دی گئی تھی جو وہ خواتین کے بارے میں رکھتا ہے کہ وہ ایک عورت کو کس طرح دیکھنا چاہتا ہے یا وہ ایک عورت کو کیا سمجھتا ہے۔
مریم کا کہنا ہے کہ اپنے کام کے دوران وہ کئی بار دکھی اور جذباتی ہوئیں۔ وہ اب دوبارہ شادی نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ ان کے دل میں خوف بیٹھ چکا ہے۔