ایک زمانے میں ڈسکو لائٹس بڑی مشہور ہوا کرتی تھیں جو شادیوں میں لگتی تھیں یا کانسرٹس پر دکھائی دیتی تھیں مگر جیسے جیسے ٹیکنالوجی نے ترقی کی ویسے ویسے نت نئی چیزیں مارکیٹ میں آتی گئیں۔ ان چیزوں کو ایک عام انسان کی طرح تو ہر کوئی استعمال کر سکتا ہے مگر اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کوئی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرے تو اس کی تعریف کرنا تو بنتا ہے۔
سید علی تبریز بخاری لاہور کے رہائشی ہیں، پہلے صحافت پھر تعلیم و تدریس اور اب یہ لائٹ آرٹسٹ کے طور پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ملکی و غیر ملکی اہل ذوق کو متاثر کر رہے ہیں۔
انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تبریز نے بتایا کہ وہ پاکستان کے پہلے لائٹ آرٹسٹ ہیں۔
ان کا کہنا تھا: 'کینیڈا کی ایک کمپنی نینو لیف نے 2017 میں اپنے لائٹ پینلز نکالے اور ان کی اس جدید ٹیکنالوجی نے ٹیوب اور بلب لائٹ کی مارکیٹ کو بالکل ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے مختلف اشکال کے ایسے پینلز نکالے جسکے اندر نہ صرف رنگ بدلتے تھے بلکہ وہ آواز پر بھی رد عمل دکھاتی تھیں۔ اس کے علاوہ اور بھی ان کے بہت سے فنکشنز تھے۔ میں نے اس ٹیکنالوجی کو بڑے گہرے طریقے سے سمجھا۔ اور اس سے آرٹ تخلیق کرنا شروع کیا۔'
تبریز کے اس آرٹ کو نینو لیف کمپنی نے بھی اپنی آفیشل ویب سائٹ پر سراہا ہے اور انہیں ان کی ٹیکنالوجی سے آرٹ بنانے والا پہلا لائٹ آرٹسٹ بھی قرار دیا ہے۔
تبریز نے بتایا کہ یہ لائٹس تین مختلف اشکال میں آتی ہیں جن میں تکون، چوکور اور مسدس شکل شامل ہے۔ انہوں نے کہا: 'میرے پاس 700 تکونیں ہیں جن کو میں اپنا آرٹ بنانے کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ اور مختلف تقریبات پر میں نے لائٹ آرٹ شوز بھی کیے ہیں۔ پبلک، پرائیوٹ اور میوزیکل ایوینٹس کے لیے بھی۔ ہم نے ان کو گھروں میں بھی انسٹال کیا ہے اور ابھی کرونا وبا سے پہلے ہماری کمرشل پراجیکٹس پر بھی بات ہو رہی تھی کہ میں لاہور کے ایک شاپنگ مال میں ایک بہت بڑا لائٹ آرٹ ایل ای ڈی ڈسپلے بناؤں گا۔ ابھی جب یہ سب ٹھیک ہو گا تو ہم دنیا کا سب سے بڑا لائٹ آرٹ ڈسپلے بنائیں گے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تبریز نے بتایا کہ اس ایک سے دو واٹ کی ایک تکونی لائٹ کی عمر25 ہزار گھنٹے سے زیادہ ہے یعنی اگر آپ کو مسلسل چلائیں تو ساڑھے چار سال اور اگر نارمل چلائیں تو سات سے گیارہ سال تک تو یہ خراب نہیں ہونے والیں۔
تبریز مختلف تقریبات میں میوزک کے ذریعے ان لائٹس سے آرٹ تخلیق کرتے ہیں یعنی یہ لائٹس میوزک کے ساتھ ناچتی ہیں۔ 'آپ جب اس کا ردھم (rythm) کا فنکشن آن کر دیتے ہیں تو یہ لائٹیں صرف تب آن ہوتی ہیں جب کوئی بولتا ہے، میوزک ہوتا ہے یا کوئی ہلکی سی بھی آہٹ ہوتی ہے۔ آپ اسے آواز سے کنٹرول کر سکتے ہیں، اپنے فون سے، لیپ ٹاپ سے بھی کنٹرول کر سکتے ہیں۔'
تبریز کہتے ہیں کہ ان لائٹس کے ساتھ بہت تخلیقی کام ہو سکتا ہے انہیں کہیں بھی لگایا جاسکتا ہے، دیوار پر، چھت پر یا پھر انہیں کوئی بھی شکل دی جاسکتی ہے جیسے تبریز کے اپنے گھر کے مختلف کمروں میں ان لائٹس کے لیمپ، بنا کر رکھے گئے ہیں یا ان سے بیڈ روم کی دیواروں پر خوبصورت ڈیزائن بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا: 'اس میں موڈ لائٹنگ بھی ہے اور موڈ کا اور لائٹ کا ایک گہرا تعلق ہے، اگر آپ کو اچھی لائٹس ملیں تو یقین مانیں آپ کو بہت اچھا محسوس ہوگا، اگر آپ مدھم لائٹس ملیں تو اس کا طبعیت پر ایک الگ اثر ہوتا ہے۔ اسی لیے موڈ لائٹنگ کے حوالے سے تو سائنس میں بھی بہت بات ہو رہی ہے یہاں تک کہ ماہر نفسیات بھی اس کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔'
ان کا کہنا ہے کہ ان پینلز سے ڈیزائن بنانا آسان نہیں بلکہ ایک ڈیزائن کو بنانے اور ان سب کو سنکرونائز کرنے میں چھ سے سات گھنٹے لگتے ہیں جبکہ اس کو اتارنے میں اس سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے کیونکہ یہ فراسٹڈ پلاسٹک ایل ای ڈی ہے جو بہت نازک میٹیریل ہوتا ہے۔
تبریز کہتے ہیں: 'ان لائٹس میں آپ کو سے آپ ڈسکو لائٹس بھی ملیں گی، سٹروب بھی، اس میں اپ کی سفید لائٹ بھی ہے اس میں آپ کا بلب بھی ہے۔ اس میں سب ہے جس رنگ کی بھی آپ نے لائٹ بنانی ہے اور آپ نے جس طرح بھی اس کی سپیڈ کنٹرول کرنی ہے۔ جیسے اگر آپ کو بہت سارا فلیش چاہیے، نارمل فلیش چاہیے یا آپ کو جو بھی چاہیے، نینو لیف لائٹ سے یہ سب آپ کر سکتے ہیں۔ یہ بہت جدید ٹیکنالوجی ہے اور استعمال میں بہت ہی آسان ہے۔'
تبریز کہتے ہیں کہ یہ کام اتنی آسانی سے شروع نہیں ہوا بلکہ تقریباً ایک برس وہ ہر روز ان لائٹوں کو سمجھنے اور ان کے مختلف انداز میں استعمال کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹے محنت کرتے تھے اس کے بعد انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔
انہوں نے کہا: 'میں نے یہ پراڈکٹ بڑی تعداد میں پاکستان منگوایا اور بجائے اس کے کہ میں اسے بیچتا میں نے اس کے سارے ڈبے کھول کر اس سے آرٹ بنانا شروع کر دیا۔ اور یہ سب میں نے پلان نہیں کیا ہوا تھا۔ میں نے اپنی بڑی اچھی نوکری چھوڑی تاکہ میں اس آرٹ کے اوپر توجہ دوں۔'