کراچی میں واقع بلاول ہاؤس میں اتوار کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک اجلاس کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے پیپلز پارٹی کو ملنے والا اظہارِ وجوہ کا نوٹس پھاڑ ڈالا۔
بلاول ہاؤس کے ایک ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار امر گرڑو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’اگر اس واقعے میں سچائی نہ ہوتی تو اب تک ہم اس کی تردید کر چکے ہوتے۔‘
سوشل میڈیا پر لوگ اس کا موازنہ بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے 1971 میں مبینہ طور پر اقوامِ متحدہ کی قرارداد پھاڑنے کے عمل سے کر رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ’قرارداد پھاڑنے‘ کا واقعہ بظاہر ہماری لوک تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور آئے روز اس پر کوئی نہ کوئی تبصرہ دکھائی دے جاتا ہے، تاہم یہ تبصرے بھی دو گروہوں میں بٹے ہوئے ملتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو قرارد پھاڑنے کو بھٹو کا ’کارنامہ‘ قرار دیتے ہیں، جس میں انہوں نے قومی غیرت کا اظہار کیا، تو دوسری جانب بہت سے لوگ اس پر سخت تنقید کرتے ہیں اور اسے پاکستان کو 1971 میں پہنچنے والی ہزیمت کا باعث گردانتے ہیں۔
ابھی دو روز قبل ایک آن لائن اخبار میں یہ تحریر پڑھنے کو ملی:
’ذوالفقار علی بھٹو کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کی گئی تقریر ۔۔۔ جس میں انہوں نے پولینڈ کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کی قرارداد پھاڑی اور جسے آج بھی بڑے فخر سے بھٹو صاحب کا ایک کارنامہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھٹو صاحب نے یہ قرارداد پھاڑ کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔۔۔‘
’بھٹو صاحب کے پاس بھی یہ آپشن موجود تھا کہ پولینڈ کی قرارداد، جس پر دنیا کے 140 ممالک کے نمائندوں کے دستخط موجود تھے، کے تحت جنگ بندی کو قبول کرتے اور پاکستان کو ٹوٹنے سے بچا لیتے، لیکن انہوں نے یہ قرارداد پھاڑ کر اپنا نیشنلزم تو جھاڑ لیا لیکن آدھا ملک گنوا دیا۔‘
اس واقعے کی ویڈیو بھی موجود ہے، جو یہاں دیکھی جا سکتی ہے:
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بھٹو صاحب نے جو کاغذ پھاڑے اور جنہیں ویڈیو میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، وہ قرارداد کا مسودہ تھا؟
سٹینلی وولپرٹ نے بھٹو کی سوانح حیات ’زلفی بھٹو آف پاکستان‘ ان تھک تحقیق کے بعد لکھی ہے۔ اس کتاب میں درج ہے کہ بھٹو نے 15 دسمبر کو جو کاغذ پھاڑے تھے، وہ ان کے نوٹس تھے۔
ایک عرصہ نیویارک سے رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی عظیم ایم میاں نے بھی اس واقعے پر روشنی ڈالی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نو جون 2012 کو جنگ اخبار کے لیے ایک کالم میں وہ لکھتے ہیں:
’اگر کوئی رکن ملک باقاعدہ کوئی تحریری مسودہ قرارداد، بیان یا موقف پیش کرتا ہے تو وہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ کا حصہ ہوجاتا ہے۔ خواہ وہ مسودہ بعد میں واپس لے لیا جائے یا اس میں ترمیم یا تنسیخ کی جائے وہ پہلا مسودہ بھی ریکارڈ میں موجود ہی رہتا ہے۔ میں نے اقوام متحدہ کا ریکارڈ بڑی تفصیل سے دیکھا اور مشرقی پاکستان کے حوالے سے پولینڈ کی قرارداد کو تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر آج تک سلامتی کونسل کے ریکارڈ سے 1971 میں پولینڈ کی قرارداد کا مسودہ نہیں ملا۔‘
یہی نہیں، اس واقعے کے ایک عینی شاہد بھی موجود ہیں۔ یہ ہیں ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے صحافی افتخار علی چوہدری جو اس دن اقوامِ متحدہ میں موجود تھے۔ عظیم ایم میاں لکھتے ہیں کہ افتخار صاحب نے انہیں بتایا کہ ’بھٹو مرحوم نے سلامتی کونسل میں جو کاغذات پھاڑے تھے وہ ان کی اپنی تقریر کے نوٹس تھے کیوں کہ جب وہ سلامتی کونسل سے احتجاجاً واک آؤٹ کرکے نکلے تو افتخار علی صاحب نے مرحوم بھٹو سے کہا کہ ان کی تقریر کا مسودہ مل جائے تو وہ اس کی خبر بنا کر بھیج دیں۔‘
’جواب میں بھٹو مرحوم نے کہا کہ انہوں نے تقریر لکھنے کی بجائے ہاتھ سے نوٹس لکھے ہوئے تھے اور وہ انہوں نے سلامتی کونسل کے ہال میں پھاڑ کر پھینک دیے۔ اس پر افتخار علی نے سلامتی کونسل کے ہال میں جاکر وہ پھاڑے گئے نوٹس کے ٹکڑے اٹھائے اور انہیں جوڑ کر پڑھا اور خبر بنا کر بھیجی۔‘
اس پر عظیم میاں تبصرہ کرتے ہیں کہ ’اگر افتخار علی صاحب کو پتہ ہوتا کہ یہ نوٹس پاکستان تک پہنچتے پہنچتے پولینڈ کی قرارداد کا روپ دھارلیں گے تو وہ بھٹو مرحوم کے تحریر کردہ نوٹس محفوظ کر لیتے۔‘