یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
سوچیں ایک بادشاہ ہے۔ اس گول دنیا کی کوئی زمین ایسی نہیں جہاں اس بادشاہ کا نام لوگ جانتے نہ ہوں، دنیا کی آبادی میں ان گنت لوگ اس بادشاہ کے نام کا ورد زباں کرتے ہوں۔
یہ ایسا سردار ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا لشکر اس کی طاقت کے آگے ہیچ ہے۔ ایسی حشمت ہے کہ بڑی طاقت والے بھی اس کا دم بھرتے ہیں۔
بڑی عجیب خوبی یہ ہے کہ وہ دنیا کے بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہے مگر موقع ملے تو معاف کر دیتا ہے، سیاست میں مذاکرات، معیشت میں مساوات اور شریعت میں تسلیمات کو ترجیح دیتا ہے۔
سوچیں کہ وہ ایسا امیر سلطنت ہے جو ہے تو بہت حلیم طبیعت مگر رعب ودبدبے والا ہے۔ وہ ظاہری غیض و غضب نہیں اپنے شخصیت کے جاہ و جلال سے پہچانا جاتا ہے۔
سوچیں کہ وہ ایسا شہنشاہ ہے کہ دھیمی آواز میں میٹھی بات کرتا ہے، ایسی بات کہ لوگ اُس کا کہا آنکھیں بند کر کے مان لیتے ہیں۔ جو اسے سنتا ہے وہ پھر سوال پوچھنے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کے پاس سب سوالوں کے جواب ہوتے ہیں۔
وہ ایسا دانا ہے کہ سامنے والے کی نیت تک جان لیتا ہے پھر بھی اپنے دشمن کو آخری وقت تک سنبھلنے، سدھرنے کا موقع دیتا ہے۔
ایک اور بھی خاص بات ہے اس بادشاہ کی، اس کے گھر والے بھی اس جیسے ہی ہیں یعنی اس کی روشنی کا پرتو۔ اس کے دوست بھی بہت پرخلوص، اس کے مشیر بھی بڑے دانا اور ایمان دار۔
یہ جو بڑے بڑے سلطان، حاکم، امیر، بادشاہ، ملکہ، شہزادے، شہزادیوں کے محل ہیں جو گوگل تصاویر کے ذریعے ہی ہم دیکھ سکتے ہیں، یہ تو کچھ بھی نہیں۔ اس شہنشاہ کے دربار میں تو ایسا جاہ و حشم ہے کہ آنکھیں تاب نہ لائیں۔ وقت کی رفتار سے پرے اس بادشاہ کی شاہی ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔
یہ آج کل کے سپیس پروگرام مانا کہ اللہ کی بنائی وسعتوں کو پرکھنے کی ہر حد تک کوشش کر رہے ہیں، مگر ان کے علم کی ایک حد ہے۔ اس عظمت ِ بشر کی راہ گزر سدرۃ المنتہا ہے، یہ انسان کی سوچوں کی بلندیوں سے بھی اوپر کی بات ہے۔
قصیدے کیا لکھوں اس شاہ کے، ممکن ہی نہیں الفاظ میں اس آقا کی شان بیان کرنا، اب تک کروڑوں نعتیں، لاکھوں کتابیں، ان گنت سلام اس شہنشاہ زمن کی شان میں لکھے گئے ہیں مگر احاطہ نہ کیا جاسکا۔
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ انکھیاں کتھے جا لڑیاں
تو ایسے مولائے کُل، عالمین کے لیے رحمت، حبیب ِ خدا، سراج السالکین، ایسے امیر، ایسے بادشاہ، ایسے لیڈر کو لبیک کیسے کہو گے؟ کیوں کر کہہ سکو گے کہ حاضر ہیں ہم؟
ایک ہاتھ میں لاٹھی، دوسرا ہاتھ اپنے ہی مسلمان بھائی کے خون سے رنگا ہوا۔ کیا کہہ سکو گے لبیک یا رسول اللہ؟
بیماروں کا راستہ روک کر، بھوکے کی روزی چھین کر، غریب کی املاک جلا کر۔ اس محسن انسانیت کے دربار میں تم کیسے پیش ہو سکو گے؟
گریبان چاک، منہ سے نکلتے جھاگ، ہاتھ میں ڈنڈا اور زبان پہ گالی۔ کیا اس خلق عظیم کے حضور تم اس حلیے کے ساتھ جاو گے؟
تم نے عشق رسول ﷺکے نام پہ جس باپ کو سڑکوں پہ گھسیٹ کر مار ڈالا، اس کے بچوں کو یتیم کر دیا، کیا وہ دُر یتیم، ابن ِعبداللہ تمھیں معاف کر دیں گے؟
تم اپنی وحشت کے ہاتھوں خود اپنے بھی قابو میں نہیں، تم نے بیمار کو لے جانے والی ایمبولینس تک کو نہیں چھوڑا۔ سوچو کہ اس کملی والے بادشاہ کو کیسے مناو گے جو اپنے دشمنوں تک کی تیمارداری کیا کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی کریم آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے کہ ’مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔‘
تم اسی آقا کے نام پہ ہسپتال کی ایمرجنسی پہ چڑھ دوڑے، تم نے اپنی روزی پہ کھڑے پولیس والوں کو پل بھر میں دائرہ اسلام سے خارج کر ڈالا۔
تم نے نہتے شخص کا کان نوچ لیا اور ساتھ میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ کیا قبول کرو گے کہ شاہ ِ بطحا نے جو نیکی، رحم، اعلیٰ اخلاق، انسانی قدر کا درس دیا تھا وہ تم بھول گئے ہو۔
تمھیں آج بھی کوئی گھر کا بڑا اپنے پاس بلائے، علاقے میں اچھی شہرت کی کوئی شخصیت تم سے ملنا چاہے، یا ملک کے وزیراعظم سے ہی تمھاری کوئی ملاقات نکل آئے۔
تم کیسے کیسے جتن کرو گے، نئے نہیں تو صاف ستھرے کپڑے پہنو گے، خود کو چمکاو گے، کوئی عطر لگاو گے، خود کو ملاقات کے قابل بناو گے۔
تم چاہو گے کہ جب اس اعلیٰ شخصیت کے سامنے پیش ہو تو تمھارا کوئی منفی تاثر نہ پہنچے۔ تمھیں ڈر ہوگا کہ کوئی خطائیں، گناہ، جرم، غلطیاں گر کبھی تم سے سرزد ہوئیں ہوں وہ ملاقات میں سامنے نہ آجائیں۔
اگر یہ سب خیال، تکلیف اور تکلف دنیا والوں کے لیے ہے تو بغیر کسی تیاری اپنے کالے کرتوتوں کی بھاری گٹھڑی سر پہ اٹھائے تم اس شافع ءمحشر، ساقی کوثر ﷺ کے حضور کیسے کہہ لیتے ہو لبیک لبیک؟