حوالات میں بند تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مرکزی رہنما پیر افضل قادری نے آسیہ بی بی کیس کے فیصلے پر ملک گیر احتجاج کے دوران متنازعہ تقریر پر معذرت کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا ہے۔
پارٹی کی مزکزی قیادت کو گذشتہ سال اکتوبر میں آسیہ مسیح کی رہائی کے خلاف دھرنا دے کر ملک بھر میں مرکزی شاہرائیں بند کرنے کے بعد دوبارہ دھمکی دینے پر کریک ڈاؤن کے ذریعے حراست میں لیا گیا تھا۔
افضل قادری اور خادم حسین رضوی کے علاوہ دیگر رہنما اور سرکردہ کارکن اب بھی جیلوں میں بند ہیں اور ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات چل رہے ہیں۔
جیل میں بند ہونے کے باوجود پیر افضل قادری کی جانب سے ایک تحریری اور ویڈیو پیغام سامنے آیا ہے جو خود پارٹی نے جاری کیا۔
دو صفحات پر مشتمل تفصیلی استعفے میں افضل قادری نے کہا کہ وہ ’امراض قلب، فالج، امراض گردہ، ہائی شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ میں مبتلا ہیں۔‘
افضل قادری کے مطابق، انہوں نے علالت کے باعث گذشتہ سال ہی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرتے ہوئے احباب کو آگاہ کر دیا تھا اور شدید بیماری کی وجہ سے ان کے لیے مزید ذمہ داریاں ادا کرنا ممکن نہیں رہا۔
انہوں نےکہا کہ جب آسیہ مسیح کیس کا فیصلہ آیا تو ان کے جذبات مجروح ہوئے اور تقریر کی، جس پر وہ حکومت، عدلیہ اور چیف آف آرمی سٹاف کی دل آزاری پر انتہائی معذرت خواہ ہیں۔
انہوں نے استعفے میں امید ظاہر کی کہ تحریک لبیک کے ذمہ دران صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے معاملات بہتر بنائیں گے۔
افضل قادری نے بہاولپور کے ایک کالج میں توہین مذہب کا الزام لگا کر پروفیسر خالد حمید کو مبینہ قتل کرنے والے طالب علم خطیب حسین سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کا سیاسی کردار اور دھرنے
ٹی ایل پی نے پہلی بار پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں اراکین اسمبلی کے حلف نامے میں ناموس رسالت سے متعلق مبینہ تبدیلی پر فیض آباد سمیت ملک بھر کی مرکزی شاہراؤں کو دھرنے دے کر بلاک کر دیا تھا۔
کئی دن تک نظام زندگی مفلوج رہنے کے بعد تحریک لبیک کے مطالبے پر سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
کامیاب دھرنے کے بعد تنظیم نے 2018 کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور ’حیران کن‘ کارکردگی دکھائی جس پر پارٹی قیادت کے حوصلے بلند ہوئے۔
گذشتہ سال اکتوبر میں سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کیا تو پارٹی نے دوسری بار ملک بھر میں دھرنا دے کر نظام زندگی مفلوج کر دیا۔
اس بار تحریک کے سربراہ پیر افضل قادری اور خادم حسین رضوی مال روڑ، لاہور دھرنے میں بیٹھ کر مختلف شہروں میں احتجاج کرنے والے کارکنوں کو ہدایات دیتے رہے۔
اس دوران پیر افضل قادری اور خادم رضوی نے مبینہ طور پر جوش خطابت میں پاک فوج کے افسران پر دھرنا ختم کرانے کے لیے سنگین دھمکیاں دینے کا الزام بھی عائد کیا۔
حکومت سے مذاکرات میں مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانیوں پر ملک بھر میں احتجاج ختم کر دیا گیا۔
تاہم، جماعت نے کچھ عرصے بعد مطالبات تسلیم نہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک بار پھر احتجاج کی کال دے دی، جس پر سکیورٹی اداروں نے تحریک لبیک کی قیادت کو لاہور سے حراست میں لے لیا۔
حکومت نے ٹی ایل پی کی قیادت اور گرفتار کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات بھی درج کرائے۔
ٹی ایل پی رہنما این آر او چاہتے ہیں؟
پارٹی کے رہنما خادم حسین رضوی پہلے ہی خاموش تھے، اب جیل سے افضل قادری کے استعفے اور ویڈیو پیغام سے نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
معروف صحافی اور تجزیہ کار رضی الدین رضی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پارٹی قیادت کے معذرت خواہانہ رویے اور خوف پر مبنی باڈی لینگویج سے لگتا ہے وہ علالت کے بجائے سکیورٹی حکام کے کہنے پر ایسے بیانات دے رہے ہیں۔‘
رضی الدین کا کہنا تھا کہ کئی ماہ جیل میں گزارنے کے بعد ’تحریک لبیک کے رہنما اب شاید این آر او چاہتے ہیں کیونکہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا ضعیف العمر رہنماؤں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ قیادت کے علاوہ تمام سرکردہ کارکنوں کے جیلوں میں بند ہونے سے پارٹی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
رضی الدین کے مطابق، قانونی طور پر جیل میں کیمرہ یا موبائل لے جانا منع ہے لیکن جیل سے پیر افضل قادری کا ویڈیو پیغام ریکارڈ کرانے میں انتظامیہ کی ’مرضی‘ شامل لگتی ہے۔