مکہ مکرمہ کے شمال میں ابو المدافع پہاڑی کی چوٹی پر نصب توپ، جسے رمضان میں استعمال کیا جاتا تھا، چھ برس سے خاموش ہے۔
لیکن اس کی گرج دار آواز اب بھی مکہ کے بہت سارے مکینوں کو یاد ہے جن کے لیے یہ روزہ رکھنے، صبح کی نماز اور رمضان کے آغاز اور اختتام کے اعلان کا ذریعہ تھی۔
وہ لوگ جو اس پہاڑی کے قریب ہی رہتے تھے وہ رمضان المبارک کا اعلان ہونے کے بعد چوٹی پر چڑھ کر توپ سے گولے داغے جانے کے مناظر دیکھتے تھے۔
یہاں سے پورے ماہ رمضان سحر و افطار کے اوقات میں گولے چلائے جاتے تھے جن کی آواز سن کر لوگ روزہ رکھتے اور افطار کرتے تھے۔
توپ کی حفاظت، اس کی دیکھ بھال اور گولے چلانے والے مکہ پولیس کے ترجمان میجر محسن الميمان نے عرب نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ توپ عوام میں کس قدر مشہور تھی۔
ان کے بقول: ’75 سال پہلے جب مکہ پولیس کی تشکیل ہوئی تھی تو فورس کو اس توپ کی دیکھ بھال اور انتظام کا کام سونپا گیا تھا۔ رمضان سے کچھ دن پہلے اسے پہاڑ پر نصب کیا جاتا تھا جب کہ عید کے بعد توپ کو ایک خصوصی محکمے کو واپس کردیا جاتا تھا۔ اس میں استعمال ہونے والے بارود کو خصوصی ٹیم سنبھالتی ہے تاکہ کوئی نقصان نہ ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
المدافع کے قریبی علاقے ريع ذاخر کے میئر فہد الحربي نے عرب نیوز کو بتایا: ’رمضان توپ کو ترک کرنے سے قبل اس میں طویل عشروں سے تکنیکی تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔ یہ مکہ کی قدیم تاریخ کی نمائندگی کرتی ہے۔ توپ کا دھماکہ اپنی تمام تر اہمیت اور خوبصورتی کے ساتھ مکہ مکرمہ کے باسیوں کے لیے ایک مقدس بلاوا بن گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ کئی سالوں سے یہ توپ چاند نظر آنے کے اعلانات اور سحر و افطار کے اوقات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کا واحد ذریعہ تھی اور مقدس مہینے میں اس کا ایک منفرد ہی کردار تھا جو لوگوں کے ذہنوں میں قیمتی یادوں کی طرح محفوظ ہے۔
’سنٹر آف مکہ ہسٹری‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فواز الدهاس کے مطابق توپ کم از کم ایک صدی سے ابو المدافع پر نصب ہے اور اس توپ اور پہاڑی نے مکہ مکرمہ کے باسیوں کو مقدس مہینے سے ان کی محبت کو جوڑ دیا تھا۔
’ماضی میں مسجد الحرام سے اذان کی آواز سننا ناممکن تھا لہذا یہ کام توپ کی مدد سے کیا جاتا تھا۔‘
فواز الدهاس نے مزید کہا کہ یہ روایت بہت ہی اچھی طرح سے برقرار تھی لیکن جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام کے میناروں سے منسلک لاؤڈ سپیکرز کے باعث بالآخر توپ کا استعمال متروک کردیا گیا۔‘
رمضان المبارک کے دوران توپوں کا استعمال 15 ویں صدی اور مملوکوں کے عہد میں شروع ہوا تھا۔