لاہور سمیت پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں میں ایک بار پھر چینی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور ماہ صیام میں رمضان بازاروں اور اوپن مارکیٹ میں استعمال کے لیے چینی کے خریداروں کو کئی کئی گھنٹے قطاروں میں لگنا پڑ رہا ہے۔
مارکیٹوں اور رمضان بازاروں میں کلو، دو کلو چینی خریدنے کے لیے خوار ہوتے شہریوں کی تکلیف سے متعلق میڈیا پر خبریں چلیں تو لاہور ہائی کورٹ نے نوٹس لیا اور متعلقہ محکموں کو حکم دیا کہ چینی بحران پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور شہریوں کو خوار ہونے سے بچایا جائے۔
بعد ازاں سرکاری حکام کی جانب سے اس یقین دہانی پر کہ بحران پر قابو پا کر جلد ہی شہریوں کو گھنٹوں لمبی قطاروں میں لگ کر چینی خریدنے کی اذیت سے نکالاجائے گا، عدالت نے سماعت 28 اپریل تک ملتوی کر دی۔
کیا شہریوں کو سستی چینی باآسانی فراہم کرنا ممکن ہوگا؟
اس سوال کے جواب میں پنجاب کے کین کمشنر زمان وٹو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے جب سے چینی کی فی کلو قیمت 80 روپے مقرر کی ہے، تب سے شوگر ملز سپلائی میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں تاکہ حکومت کو بلیک میل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’پہلے شوگر ملز ٹرک ڈرائیوروں کو بھی بغیر شناختی کارڈ چینی لوڈ کرا دیتی تھیں مگر اب انہوں نے اتحاد بنا لیا ہے کہ صرف ان ڈیلرز کو چینی فروخت ہوگی جو سیلز ٹیکس ایکٹ 1990کے تحت رجسٹرڈ ہیں، جبکہ رجسٹرڈ ڈیلرز کی تعداد بہت کم ہے، جس سے مارکیٹ میں سپلائی کم ہونے سے مصنوعی بحران کھڑا کردیا گیا ہے۔‘
زمان وٹو کے مطابق حکومت نے رمضان میں ایک لاکھ 55 ہزار میٹرک ٹن چینی سپلائی کا ٹارگٹ دیا، جس میں سے 30 ہزار میٹرک ٹن رمضان بازاروں جب کہ باقی اوپن مارکیٹ سے شہریوں کو فراہم کی جائے گی، لیکن اس معاملے میں شوگر ملز مالکان مختلف حربوں سے اس ٹارگٹ کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ عدالت کو کروائی گئی یقین دہانی کے مطابق قطاریں کیسے ختم کرائی جائیں گی؟ تو انہوں نے کہا کہ ’ہم بلاوجہ رکاوٹیں ڈالنے والی شوگر ملز انتظامیہ کے خلاف کارروائی کررہے ہیں اور رمضان بازاروں میں چینی کے خریداروں کے لیے ایک کی بجائے زیادہ کاؤنٹر ہوں گے، ان کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں لگائی جائیں گی تاکہ لوگ خوار نہ ہوں بلکہ باآسانی سستی چینی خرید سکیں۔‘
کین کمشنر نے مزید کہا کہ ’شوگر ملز میں چینی کی تیاری کی رپورٹ تیار کرلی گئی ہے جس کے مطابق شوگر ملوں کو چینی کی تیاری 70 سے 73 روپے میں پڑتی ہے، اس لیے طے کیا گیا ہے کہ عید سے پہلے چینی کی فی کلو قیمت 80 روپے کلو تک محدود کر دی جائے گی اور اس کے لیے ٹھوس حکمت عملی تیار ہوچکی ہے۔ کسی بھی شوگر مل کے لیے اس سے زائد قیمت پر چینی کی فروخت ممکن نہیں رہے گی اور خلاف ورزی پر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
دوسری جانب شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل حسن اقبال کے مطابق حکومت نے رواں ماہ شوگر ملز کوایک لاکھ 55 ہزار میٹرک ٹن چینی کی 80 روپے فی کلو قیمت کے حساب سے فراہمی کا حکم دیا، اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے صرف رجسٹرڈ سیلز ٹیکس ڈیلرز کو چینی فروخت کی جارہی ہے تاکہ کوئی سٹاک کرکے بلیک میں فروخت نہ کرسکے۔
ان کا مزید کہنا تاھ کہ ’اس معاملے میں شوگر ملز کی جانب سے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جا رہی، تاہم سپلائی کیوں متاثر ہوئی اس کا جواب متعلقہ سرکاری حکام ہی دے سکتے ہیں۔‘
شوگر بحران کی عدالتی کارروائی
لاہور ہائی کورٹ میں رمضان بازاروں میں چینی کے خریداروں کی لمبی قطاروں کے حوالے سے نوٹس اور چینی بحران سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی تو جسٹس شاہد جمیل خان نے قرار دیا کہ ’عدالت نے شوگر ملز کو حکومتی ڈیمانڈ کے مطابق 80 روپے فی کلو چینی فراہم کرنے کا حکم دیا جبکہ رپورٹ کے مطابق وہ عدالتی احکامات پر ایک لاکھ 55 ہزار میٹرک ٹن چینی فراہم کر رہے ہیں، لیکن بازاروں میں شہریوں کو بھکاریوں کی طرح لائنوں میں کھڑا کرکے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور رمضان بازار میں 15 روپے فی کلو قیمت کم کرکے لوگوں کو روزے کے ساتھ گھنٹوں خوار کیا جا رہا ہے۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ حکومت نے انتظامات بہتر کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ جس پر سرکاری لا افسر چوہدری جواد یعقوب نے جواب دیا کہ ’عدالتی حکم پر پنجاب کے تمام سیکرٹریز کی میٹنگز کروائی گئیں تاکہ انتظامات بہتر کیے جائیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’تمام رمضان بازاروں کے ساتھ سپیشل بوتھ بنایا جائے گا، جس میں آٹا اور چینی دی جائے گی۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ ’آپ کو اپنی مرضی کے مطابق ریٹ اور چینی دینے کا حکم بھی دیا گیا، آپ نے رمضان بازاروں کے ساتھ عام مارکیٹ میں قمیت اور چینی کی دستیابی کو یقینی بنایا؟‘
جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ’ایک لاکھ 55 ہزار ٹن چینی دی جائے گی۔ عوام نے سستی چینی کے لیے چینی زیادہ خریدنا شروع کردی، یہ المیہ ہے کہ جب کہیں سیل لگتی ہے تو قطاریں بھی لگتی ہیں، قطاریں تو یورپ میں بھی لگتی ہیں۔‘
عدالت نے سرکاری وکیل کی طرف سے یورپ میں لگنے والی سیل اور رمضان بازاروں میں لگنے والی لائنوں کا موازنہ کرنے پر سرکاری لا افسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’یورپ میں جو سیل لگتی ہے کیا وہ بنیادی ضرورت کی اشیا پر مشتمل ہوتی ہے؟ یورپ میں لگنے والی سیل کے ساتھ رمضان بازار میں لگنے والی لائنوں کا موازنہ نہ کریں، چینی کے مسئلے کو یورپ کی سیلوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے، چینی بنیادی ضرورت ہے، اس کے لیے لوگوں کو کیوں بھکاری بنایا جارہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’مسئلہ صرف آپ کی گورننس کا ہے، آپ کی ضرورت کے مطابق عدالت نے شوگر ملوں کو آپ کو دینے کا حکم دیا، اس کے باوجود لوگوں کی لائنیں لگوائی جارہی ہیں اور شناختی کارڈز مانگے جارہے ہیں۔‘
عدالت نے قرار دیا کہ ’اس کیس میں مسئلہ ریگولیشن کا ہے، پرچون کی سطح پر چینی 50 روپے کلو نہیں مل رہی۔ حکومت پرچون کی سطح پر چینی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ عوام کو لائنوں میں لگا کر تذلیل کرنا آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘ اس کے ساتھ ہی عدالت نے لا افسر اور سیکرٹریز کو مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت بدھ 28 اپریل تک ملتوی کردی۔
مارکیٹ کی صورت حال
دوسری جانب کین کمشنر زمان وٹو کہتے ہیں کہ شوگر ملز مالکان نے حکومت کی جانب سے سپلائی چین مینجمنٹ آرڈر 2021 کو ناکام بنا کر من مانی قیمتیں وصول کرنے کی حکمت عملی بنا رکھی ہے تاکہ ان سے چینی 80 روپے کی بجائے 110 روپے تک خریدی جائے، لیکن حکومت کی جانب سے قیمت خرید 80 اور مارکیٹ میں 85 روپے کلو فروخت یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے صدر کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن لاہور حافظ عارف گجر نے بتایا کہ شوگر ملز مالکان کی جانب سے حکومتی ریٹ 80 روپے فی کلو مقرر کیے جانے کے بعد ہول سیل ڈیلرز کو تنگ کرنا شروع کردیا گیا اور اچانک سیلز ٹیکس رجسٹریشن کی شرط عائد کردی گئیں جب کہ جنہوں نے پہلے ایڈوانس رقم جمع کروا دی تھی، جو ایس ٹی این نہ رکھنے والوں کے پیسے واپس کرنا شروع کردیے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس ادا نہ کرنے کی آڑ میں شوگرملز مالکان نے سپلائی متاثر کردی جس سے ہول سیل ڈیلرز بھی بلیک میل ہورہے ہیں۔ اگر اسی طرح چلتا رہا تو چینی بحران پر کبھی قابو نہیں پایا جاسکتا۔
واضح رہے کہ حکومت گذشتہ دو سال سے چینی بحران پر مختلف اقدامات اور دعوؤں کے باوجود مکمل قابو نہیں پاسکی۔ حکومت کی جانب سے کروائی گئی چینی بحران انکوائری اور آڈٹ رپورٹ میں پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین، وفاقی وزیرخسرو بختیار، شریف خاندان، زرداری اور چوہدری برادران سمیت نو بڑے شوگر ملز گروپوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا لیکن کسی کے خلاف ابھی تک موثر کارروائی نہیں ہوسکی اور بحران بھی جوں کا توں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی متعدد بار شوگر ملز مالکان کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کر چکے ہیں۔