پاکستان کے قبائلی اضلاع جنوبی و شمالی وزیرستان میں ایک بار پھر ٹارگٹ کلینگ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سکیورٹی فورسز کی شدت پسندوں کے خلاف غیر اعلانیہ کارروائیاں بھی جاری ہیں۔
جنوبی وزیرستان کی تحصیل مکین کے تازہ واقع میں دو نوجوان کی ہلاکت کے بعد لوگوں نے لاشیں اٹھا کر سکیورٹی فورسز کے قلعہ کے سامنے دھرنا دیا ہے۔
تحصیل مکین کے ایس ایچ او قادر خان نے بتایا کہ گذشتہ رات ایک بجے کے قریب انعام اللہ، کلام الدین اور منصور گاؤں کے ایک دکان میں بیٹھے تھے کہ اس دوران نامعلوم افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں انعام اللہ اور کلام الدین ہلاک جبکہ منصور زخمی ہوئے اور زخمی کو ایف سی والوں نے طعبی امداد کے لیے رزمک ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں نے لاشوں کے ساتھ ایف سی قلعہ کے سامنے دھرنا دیا اور انتظامیہ نے مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔
جاوید محسود نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ رات تحصیل مکین کے علاقے بی بی زئی میں گاؤں کے بیچ میں واقع دوکان میں بیٹھے نوجوان لڑکوں پر ایک گاڑی سے فائرنگ ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں 17 سالہ انعام اللہ والد محمد یونس اور 18 سالہ کلام الدین والد بخمل خان موقع پر ہلاک جبکہ منصور نامی لڑکا شدید زخمی ہوا ہے جنہیں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے علاج کے لیے ہسپتال پہنچا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ علاقے میں کوئی پارک یا وقت گزارنے کے لیے کوئی دوسری مناسب جگہ نہیں اور علاقے کے اکثرنوجوان رمضان میں سحری تک یہاں بیٹھے رہتے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ فائرنگ کرنے والے ایف سی کے وردیوں میں ملبوث تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واقعہ میں زخمی ہونے والے منصور نے ایک ویڈیو میں بتایا کہ وہ دکان میں بیٹھے فلم دیکھ رہے تھے اور وہ روزانہ سحری تک یہاں بیٹھتے تھے اور جب فلم ختم ہوئی تو فائرنگ شروع ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ نہیں دیکھا ہے کہ فائرنگ کہاں سے ہورہی ہے اور وہ کلمے کا ورد کرتے رہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایف سی والوں نے اسے اٹھا کر ہسپتال پہنچایا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف سی والوں نے ان کا بہت زیادہ خیال رکھا ہے۔
اس کے علاوہ ادھر شمالی وزیرستان میں دو دن پہلے علاقہ تپئی میں رات کے وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ملک محمد ایاز کو ہلاک کردیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ جس جگہ واقعہ پیش آیا تھا وہ جگہ سکیورٹی فورسز کے چیک پوسٹ سے چند میٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے۔ ملک ایاز پختون تحفظ مومنٹ کے حامی خیال کیے جاتے تھے۔
شمالی وزیرستان میں ہی محمد آیاز کے ہلاکت سے پہلے علاقہ دیوگر سیدگی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجہ میں دو افراد ہلاک جبکہ ایک زخمی ہوا تھا۔ اس واقعہ کے بعد سکیورٹی فورسز نے پورے علاقے کو اپنی تحویل میں لیا تھا اور کئی بوڑھے اور نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر حراست میں لے لیا تھا۔
دیوگر سیدگی کے شہریوں نے میران شاہ پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا اور الزام لگایا تھا کہ ہلاکتوں میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار ملوث تھے۔
چند دن پہلے آئی جی ایف سی میجر جنرل محمد عمر بشیر نے وانا پریس کلب میں دو نئے کمروں کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا کہ کچھ بیرونی قوتیں وزیرستان میں حالات دوبارہ خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جس کے مقابلے کے لیے انہیں ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا۔ ’ان قوتوں کی اس ناپاک سازش کو ہر صورت میں ناکام بنایا جائے گا۔‘
دس سال پہلے کی طرح ایک دفعہ پھر انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وزیرستان میں جہاں بھی ملک دشمن سرگرمیاں ہوں تو عوام کا فرض بنتا ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلومات دیں تاکہ دشمن کے عزائم کا بروقت قلع قمع کیا جاسکے۔
دیکھا جائے تو وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار امن امان برقرار رکھنے کے لیے شہریوں سے تعاون مانگ رہے ہیں تو دوسری طرف پختون تحفظ مومنٹ کے حامی ان پر الزام لگا رہے کہ وہ حالات خراب کر رہی ہیں۔