زیادہ عرصہ نہیں گزرا 24 دسمبر کی بات ہے احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ ہونا تھا میاں نواز شریف اپنے رفقاء کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود تھے احتساب عدالت کے جج نے فیصلہ سنایا۔ اڈیالہ جیل کا عملہ موجود ہوتا ہے۔ اسٹننٹ کمشنر میاں نواز شریف سے پوچھتا ہے ’چلیں سر؟‘ میاں صاحب جواب دیتے ہیں ’گاڑی آپ کے پاس موجود ہے یا نہیں؟‘ وقت گزرتا ہے۔
میاں نواز شریف پابند سلاسل ہو جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں کیس چلتا ہے ضمانت کا اعلی عدلیہ کے منصف چھ ہفتوں کی طبی بنیادوں پر ضمانت دیتے ہیں۔ یہ بھی وقت گزر جاتا ہے۔ وکلاء میاں نواز شریف کی خرابی صحت کی بناء پر اعلی عدلیہ میں ضمانت کی دی گئی مدت میں توسیع کی درخواست کرتے ہیں وہ مسترد ہو جاتی ہے۔ تاریخ کی کتابیں چھان ماریں کہ اپنی مرضی سے کون جیل جاتا ہے، یہ بات معلوم کی جا سکے۔
نون لیگ والے دعویٰ کرتے ہیں کہ جیل جانے والی ریلی کامیاب تھی، حکومت کہتی ہے کہ شو فلاپ تھا۔ شو فلاپ تھا تو حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ میڈیا کو اسے بلیک آوٹ کرنے کے احکامات صادر نہ کرتی تاکہ دنیا جان جاتی کہ شو فلاپ تھا یا ناکام۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ سچ بات ہے کہ حکومت اور مقتدر قوتوں کو یہ سب دیکھنے کی تاب نہیں تھی شاید۔
ایک سوال میرے ذہن پر بار بار دستک دیتا رہا کہ اس مملکت میں جیلیں صرف سویلین حکمرانوں کے مقدر میں کیوں ہیں آج تک کوئی فوجی آمر پس زنداں کیوں نہیں ہوا؟ ماضی قریب کی بات ہے کہ مشرف کا ٹرائل ہوتا ہے گاڑیاں ان کے فارم ہاؤس سے نکلتی ہیں پھر انہونی ہوئی کہ گاڑیوں کا رخ عدالت کی بجائے سی ایم ایچ کی طرف ہو گیا۔ باقی سب تاریخ ہے۔
میں نے لاہور میں مقیم صحافی دوستوں سے جاننا چاہا کہ ہم اسلام آباد میں بیٹھے اندھے اور بہرے لوگ ہیں الیکٹرانک میڈیا پر تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا یہاں تو سکرینوں پر افطار میں کیا استعمال کرنا چاہئے اس کے فوائد کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر میں جڑا رہا وہاں تو کامیاب شو بتایا جا رہا ہے اصل حقیقت سے آگاہ کیا جائے؟ ایک دوست نے جواب دیا کہ لوگوں کی بڑی تعداد ریلی کے ساتھ ہے اور الیکٹرک میڈیا سے بلیک آؤٹ ہی اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔