سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں فیس بک کی جانب سے خود پر عائد پابندی کو قائم رکھنے پر ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں پر شدید تنقید کی ہے۔
سابق امریکی صدر نے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل کو امریکہ کے لیے ’بدنامی اور شرمندگی‘ قرار دیتے ہوئے ان پر الزام لگایا کہ وہ ان کی آزادی اظہار کا حق چھین رہی ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ تینوں کمپنیوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ ’بنیاد پرست بائیں بازو کے دیوانے سچ سے خوف زدہ ہیں۔‘
ٹرمپ نے اپنے نئے بلاگ پر ایک پوسٹ میں لکھا ’جو کچھ فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل نے کیا وہ ہمارے ملک کے لیے سراسر بدنامی اور شرمندگی ہے۔‘
ان کے مطابق ’ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر سے اظہار رائے کا حق چھین لیا گیا ہے کیونکہ بنیاد پرست بائیں بازو کے دیوانے سچ سے خوف زدہ ہیں لیکن حقیقت سامنے آجائے گی۔ جو پہلے سے کہیں زیادہ طاقت ور اور مضبوط ہوگی۔‘
سابق صدر نے مزید لکھا کہ ’ہمارے ملک کے عوام اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔ ان بدعنوان سوشل میڈیا کمپنیوں کو لازمی طور پر ایک سیاسی قیمت ادا کرنا ہوگی۔
’انہیں کبھی بھی ہمارے انتخابی عمل کو برباد اور ختم کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘
سابق صدر نے فیس بک کے نگران بورڈ کے ذریعے خود پر عائد کردہ فیس بک پلیٹ فارم کی پابندی برقرار رکھنے کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار کیا، جس میں حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار کمپنی کو دیا گیا ہے۔
بورڈ نے فیصلہ سنایا کہ کیپیٹل ہل میں بلوا کرنے والوں کی حمایت کے اظہار پر مبنی پوسٹوں کے بعد کمپنی کا ٹرمپ پر پابندی عائد کرنا درست عمل تھا۔
لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیس بک کو اس پابندی کو غیر معینہ مدت تک عائد نہیں کرنا چاہیے تھا اور مارک زکربرگ کو کہا کہ ان کی کمپنی کو معطلی کے لیے ایک ٹائم فریم کا فیصلہ کرنا ہو گا۔
بورڈ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’ایک مبہم، غیر معیاری جرمانے کا اطلاق کرنے اور پھر اس معاملے کو حل کرنے کے لیے بورڈ کو بھیجنے سے فیس بک اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘ یہ بورڈ 20 ماہرین پر مشتمل تھا۔
ماہرین کے بورڈ نے فیس بک کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ فیس بک ایک معین کردہ جرمانہ لاگو کرے اور اس کا جواز پیش کرے۔
بورڈ کے فیصلے کے بعد فیس بک کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے اکاؤنٹ پر عائد پابندی برقرار رہے گی۔
فیس بک کے عالمی امور اور مواصلات کے نائب صدر نک کلیگ نے بدھ کو ایک بلاگ پوسٹ میں لکھا کہ ’ہم اب بورڈ کے فیصلے پر غور کریں گے اور ایسی کارروائی کا تعین کریں گے جو واضح اور متناسب ہو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹس معطل رہیں گے۔‘
امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق برطانیہ کے سابق نائب وزیر اعظم نک کلیگ نے بورڈ کے فیصلے کے بعد اپنے تمام طے شدہ انٹرویوز کو منسوخ کر دیا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی سے ان کی روزانہ کی پریس بریفنگ میں فیس بک کے فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ ’سابق صدر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے مستقبل کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کرے گی۔‘
تاہم جین ساکی کا مزید کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس کا خیال ہے کہ عوام کو غلط معلومات سے بچانے کے لیے سوشل میڈیا کمپنیوں پر ایک بڑی ‘ذمہ داری’ عائد ہوتی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کووڈ 19 کی ویکیسن اور انتخابات کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بڑے پلیٹ فارمز پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام امریکیوں کی صحت اور حفاظت سے متعلق ناقابل اعتماد مواد، غلط معلومات اور غیر مصدقہ معلومات کو پھیلانے سے روکیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے گذشتہ کئی مہینوں کے دوران متعدد ذرائع کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا۔ ہم کسی مخصوص شخص یا گروہ پر اس کا الزام نہیں لگا رہے بلکہ عمومی طور پر بات کرت رہے ہیں۔‘
جین ساکی کے مطابق، صدر بائیڈن جو فیس بک کے ناقد رہے ہیں وہ ’بہتر پرائیویسی تحفظ اور ایک مضبوط اور پر اعتماد پروگرام کی حمایت کرتے ہیں۔‘
جین ساکی کا کہنا تھا کہ ’ان کا نظریہ یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح کی غلط، غیر مصدقہ، نقصان دہ اور بعض اوقات جان لیوا معلومات سے متعلق آگاہی امریکی عوام کے سامنے نہیں آ رہی۔‘
سابق صدر ٹرمپ نے نگران بورڈ کو بتایا کہ ان کے حامی چھ جنوری کو ہونے والے تشدد کے باوجود ’قانون کی پاسداری‘ کر رہے تھے، جب انہوں نے جو بائیڈن کی انتخابی جیت کی تصدیق کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
فیصلے کے منظر عام پر آنے والے حصے میں انہوں نے بورڈ کو بتایا کہ چھ جنوری کو انہوں نےایسا کچھ بھی نہیں کہا جس کو عوامی تحفظ کے لیے خطرہ سمجھا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ کے بیان کو ایک قدامت پسند مسیحی گروپ امریکن سینٹر فار لا اینڈ جسٹس کے ذریعے بورڈ میں پیش کیا گیا تھا۔
ٹرمپ نے جس ’سیاسی قیمت‘ کا حوالہ دیا تھا، اس کا اظہار متعدد ری پبلکن سیاست دانوں نے فیس بک کی عائد کردہ پابندی کے برقرار رہنے کی خبر پر اپنے ابتدائی رد عمل میں دیا۔
وائٹ ہاؤس کے سابق چیف آف سٹاف مارک میڈوز نے فاکس نیوز کو بتایا کہ یہ ’فیس بک کے لیے ایک افسوس ناک دن‘ تھا کیونکہ اب کانگریس کے ممبران اس کمپنی کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ اجارہ داری کے طور پر کام نہیں کر رہی۔
کانگریس کے سابق ریپبلکن رکن میڈوز کا کہنا تھا کہ ’آزاد اور آزادی پسند مغربی ریگولیٹری ماحول‘ جس کا فیس بک اور دیگر کمپنیوں نے لطف اٹھایا ہے، اب یہ اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
سینیٹر جوش ہاؤلے نے، جنہوں نے حال ہی میں ایک کتاب ’دی ٹائرنی آف بگ ٹیک' شائع کی ہے، ایک ٹویٹ میں کہا ’یہاں بگ ٹیک کے ظلم کی ایک حقیقی زندگی کی مثال موجود ہے۔ ایک جعلی فیس بک عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ فیس بک کچھ بھی کر سکتی ہے۔
’وہ اس معاملے میں ڈونلڈ کو بغیر کسی جائز کارروائی کے معطل کر سکتی ہے۔ اجارہ داری ایسی ہی ہوتی ہے۔ اس کو ختم کرنا ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی ایوان نمائندگان میں ریپبلکن رہنما کیون میکارتھی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جی او پی (ری پبلکن) کی اکثریت آزادی اظہار پر بڑی ٹیک کمپنیوں کے اختیار پر لگام ڈالے گی۔
ری پبلکن جماعت کی لورین بوئبرٹ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ فیس بک کا شکریہ کہ اس نے سال 2022 میں جی او پی کی اکثریت کو یقینی بنا دیا۔
اس فیصلے پر بائیں بازو کے قانون ساز بھی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
ڈیموکریٹک جماعت کی سینیٹر الزبتھ وارن نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’فیس بک منافع حاصل کرنے کے لیے ایک ڈس انفارمیشن مشین ہے جو ہمارے لوگوں اور جمہوریت کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داری قبول نہیں کرتی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ٹرمپ پر پابندی عائد کی جانی چاہیے لیکن جب تک کانگریس اور اینٹی ٹرسٹ ریگولیٹرز بگ ٹیک کو لگام نہیں ڈالتے تب تک فیس بک اپنی طاقت کا استعمال کرتی رہے گی۔‘
سابق امریکی صدر ٹرمپ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی کا شکار ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنا پلیٹ فارم شروع کرنے جا رہے ہیں۔
منگل کو انہوں نے اپنی سیاسی ایکشن کمیٹی ویب سائٹ کے بلاگ سکیشن کو بھی لانچ کیا ہے۔
© The Independent