یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں ^
برسر اقتدار حکمران جماعت کی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے وزیر اعظم نے اس مرتبہ ملک کی سب سے صاف ستھری فارن سروس اور اس کے افسران کو مشق ستم بنایا۔
ناقص اطلاعات اور سفارت خانوں میں دی جانے والی سہولتوں کے بارے میں کم فہمی کی بنیاد پر اور عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے انہوں نے سفیروں کو اور سفارت خانوں کو ایک خطاب میں برا بھلا کہا۔ پاکستان کی فارن سروس کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے لیے اور تارکین وطن کے دلوں میں اپنے سفارت خانوں کے خلاف جذبات ابھارنے کے لیے اس تلخ کلامی کو براہ راست نشر کرنے کا بھی اہتمام کرایا گیا۔
وزیر اعظم کے وزارت خارجہ پر اس حملے نے ہر ذی شعور شہری کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ کے افسران کے بہترین کام کی نہ صرف توہین کی گئی بلکہ ان کی آئندہ مزید بہتر کام کرنے کی خواہش کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔
وہ فارن سروس جس کی مہارت اور قابلیت کی بھارتی قیادت ہمارے جارحانہ تعلقات کے باوجود اور بین الاقوامی مفکرین بھی معترف ہیں اور ہماری فارن سروس کے لیے اچھے اور تعریفی کلمات کہتے رہے ہیں، ہمارے وزیر اعظم نے ایک لمحہ سوچے بغیر پوری سروس کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا۔ اب ہماری فارن سروس نہ صرف بھارت میں بلکہ پوری دنیا میں وزیر اعظم کے ان ناپختہ کلمات کے بعد تمسخر کا نشانہ بنائی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم نے فارن سروس پر حملہ کرتے ہوئے اپنے عمومی دعوے، جس میں وہ ہر مسئلے پر اپنی بہتر معلومات کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور ہر چیز کو اپنے مغرب میں کچھ سال رہنے کے تجربے سے منسوب کرتے ہیں، اس حملے کے وقت بھی اپنے مغرب میں رہتے ہوئے سفارت خانوں کے بارے میں اپنے نام نہاد تجربات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ عوام اور محنت کشوں کے ساتھ بیرون ملک ہمارے سفارت خانے کیسا برا سلوک روا رکھتے ہیں۔
یہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم کا ان کی کرکٹ کھیلنے کے وقت کا مغرب کا تجربہ وہاں کی شباب و شراب کی محفلوں اور ایک خاص اشرافیہ سے تعلقات تک محدود تھا، نہ کہ وہاں پر رہتے ہوئے وہ ان محنت کش پاکستانیوں کے ساتھ میل جول رکھتے تھے۔ انہیں کیا پتا تھا کہ وہاں پر سفارت خانے کس طرح بیرون ملک پاکستانیوں کی خدمت کر رہے ہیں، اس لیے انہیں اب مغرب کے بارے میں اپنی ناقص اور محدود معلومات کا ڈھول پیٹنا بند کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ سے وہ نہ صرف قومی میڈیا بلکہ سمجھ دار ملکی اور غیرملکی حلقوں میں بھی مسلسل مذاق کا نشانہ بنتے ہیں۔
انہیں وزارت خارجہ کی اصلاح ضرور کرنی چاہیے۔ انہیں پچھلے تین سالوں میں کسی نے اس کام سے روکا نہیں ہے، لیکن ایک قابل احترام سروس کو بغیر معلومات کی بنیاد پر اس سطحی انداز میں تضحیک کا نشانہ بنانا ملک کے وزیر اعظم کے شایان شان نہیں تھا۔
کیا یہی خیالات وہ بغیر براہ راست نشریات کے سفیروں تک نہیں پہنچا سکتے تھے؟ اگر وزارت خارجہ، وزیر اعظم کی حکومت کے پچھلے تین سالوں میں اپنی سمت درست نہیں کر سکی یا بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی تو سب سے پہلے تو اس جرم کی سزا میں وزیر خارجہ کو فوراً برطرف کر دینا چاہیے تھا۔ وہ نہ وزارت خارجہ کی مناسب طریقے سے قیادت کر سکے اور نہ ہی اپنے سفیروں کی کارکردگی پر نظر رکھ سکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خطاب کے پس پردہ محرکات میں وزارت خارجہ کی مبینہ کارکردگی کی بجائے کچھ اور کہانی ہے۔
ان محرکات میں پہلی وجہ تو حالیہ انتخابی قوانین میں تبدیلیوں کی کوشش ہے۔ ان کے ذریعے تارکین وطن کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوگا۔ تازہ تنقید کو اس پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وزارت خارجہ کے افسران پر اس حملے کا مقصد تارکین وطن کی ہمدردیاں اور ان کا ووٹ حاصل کرنے کی ایک کوشش بھی ہو سکتا ہے۔
دوسری اور بہت اہم وجہ وزیر اعظم کے لیے موجودہ مشکل ملکی سیاسی صورت حال ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم موجودہ مخدوش قومی سیاسی حالات میں شاید وزیر خارجہ کو ایک طاقتور مدمقابل تصور کرنے لگے ہیں اور انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید ان کی حکومت کے خلاف پارٹی میں اور مقتدر حلقوں میں کوئی سازش ہو رہی ہے جس کو روکنے کے لیے اور شاہ محمود قریشی کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے اس خطاب کا اہتمام کیا گیا۔ وہ یہی سلوک پچھلے سال جہانگیر ترین سے بھی کر چکے ہیں۔
اگر خطاب کا مقصد صرف فارن سروس کی اصلاح کرنا تھا تو پھر ضروری تھا کہ وزیر اعظم اس یکطرفہ مکالمے کی بجائے عوام کو سفیروں کے جوابات سننے کا موقع بھی فراہم کرتے۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے اپنے لعن طعن کے بعد سفیروں کو جواب دینے کا موقع نہ دینے کا فیصلہ کیا اور صرف وزیر خارجہ کو بولنے کی اجازت دی۔
وزیر خارجہ نے ایک شاطر سیاست دان کی طرح وزیر اعظم کے حملوں کا جواب دینے یا سفیروں کی کارکردگی، جنہیں انہوں نے خود منتخب کیا تھا، کا دفاع کرنے کی بجائے ایک جاگیردارانہ انداز میں یہ موقع استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے رولز آف بزنس سے ہٹ کر مزید اختیارات کا مطالبہ کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں اختیار دیا جائے کہ صرف وہ فیصلہ کریں کہ کون افسر بیرون ملک سفیر تعینات کیا جائے یا اسے پاکستان میں ہی رہنے دیا جائے اور کتنے وقت کے لیے رہنے دیا جائے۔ موجودہ طریقہ کار میں سفیروں کی تعیناتی کی تجویز سیکرٹری خارجہ کرتے ہیں اور وزیر خارجہ ان میں ردوبدل کی بعد اسے وزیر اعظم کو منظوری کے لیے پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کے سفیروں کی تعیناتی میں افسروں کی سنیارٹی کو مدنظر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور صرف انہیں یہ فیصلہ کرنے دیا جائے، جس کی وجہ سے وہ جونیئر افسران کو بھی سینیئر پوزیشن پر تعینات کر سکیں۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سفیروں کی مسلسل دو کی بجائے ایک پوسٹنگ کی جائے اور انہیں یہ اختیار ہو کہ کس سفیر کو کتنا عرصہ باہر رہنے دیا جائے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ وہ یہ مطالبات اس وقت کر رہے تھے جب پچھلے تین برسوں میں تمام سفیروں کی تعیناتی انہوں نے ہی کی اور معمول سے ہٹ کر میزبان حکومت کی منظوری کا انتظار کیے بغیر ان کے ناموں کے خود اعلانات بھی کیے۔ سعودی عرب میں زیرعتاب سابق سفیر راجہ علی اعجاز کو بھی شاہ محمود قریشی نے ایک ویڈیو انٹرویو کے بعد خود منتخب کیا تھا۔
شاہ صاحب کے مطالبات سے ایسا لگتا ہے جیسے وہ وزیر اعظمی ڈانٹ ڈپٹ کو اپنی طاقت مزید بڑھانے کے لیے ایک موقع سمجھ رہے تھے۔
وزیر خارجہ کے ان مطالبات کے ماننے کے بعد شاید وزارت خارجہ میں سیکریٹری خارجہ کی بھی ضرورت نہ رہے۔ وزیراعظم کی اس تنقید کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر خارجہ کو اپنی وزارت کو چلانے میں ناکامی پر استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا، بہ نسبت اپنے لیے اور اختیارات کا مطالبہ کرتے۔
سروس کی اس طرح تضحیک کرنے اور سینیئر اور جونیئر سبھی افسران کے حوصلے پست کرنے پر سیکریٹری خارجہ کو وزیر اعظم کے اس حملے کا اسی وقت جواب دیتے ہوئے وزارت کے کام اور افسروں کا دفاع کرنا چاہیے تھا، لیکن چونکہ وہ خاموش رہے تو انہوں نے وزیر اعظم کی نظر میں وزارت کی مبینہ بری کارکردگی کو تسلیم کر لیا۔
اس ناکامی کو تسلیم کرنے کے بعد اخلاقی طور پر ان کا اس پوزیشن میں رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا اور انہیں رضاکارانہ طور پر اس عہدے سے ہٹ جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں وزارت خارجہ میں ایک روشن مثال موجود ہے جب سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان نے زرداری حکومت سے پالیسی معاملات پر اختلافات کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔
بدقسمتی سے وزیر اعظم کے خطاب اور وزیر خارجہ کے مطالبات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں سیاسی رہنما وزارت خارجہ کے لیے انتہائی خطرہ ہیں۔ وزیر اعظم اپنی سیاسی بنیاد مضبوط کرنے اور عوام کی توجہ ملکی مسائل سے ہٹانے کے لیے ایک اہم ملکی ادارے پر حملہ آور ہیں جبکہ وزیر خارجہ اس حملے کو اپنی طاقت بڑھانے کے لیے ایک موقع تصور کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے بےتاج بادشاہ بننا چاہتے ہیں۔
یہ صورت حال نہ وزارت خارجہ اور نہ ہی ملک کے لیے کسی طرح مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔