یہ 1790 کی بات ہے۔ ایک 35 سالہ جرمن ڈاکٹر لائپزگ شہر میں شمع کی روشنی میں میز پر جھکا ہوا سکاٹ لینڈ کے طبی ماہر ولیم کلن کی کتاب ’ٹریٹس آن میٹریا میڈیکا‘ کا جرمن زبان میں ترجمہ کر رہا ہے۔
لکھتے لکھتے اچانک ڈاکٹر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ یہ ان کے لیے ویسا ہی لمحہ ہے جیسے یونانی سائنس دان ارشیمیدس پر ٹب میں نہاتے نہاتے دھاتوں کی کثافت جاننے کا راز منکشف ہوا تھا اور وہ ننگ دھڑنگ حالت میں ’یوریکا یوریکا‘ پکارتا ایتھنز کی گلیوں میں دوڑنے لگا تھا۔
یہ جرمن ڈاکٹر سیموئل ہانیمن تھے، اور یہ ’یوریکا‘ لمحہ وہ تھا جب ہومیوپیتھی کے طریقۂ علاج کا جنم ہوا، جس سے آج بھی دنیا بھر کے کروڑوں لوگ ’استفادہ‘ کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر ہانیمن ولیم کلن کی کتاب میں جس نکتے پر چونکے تھے، وہ اس زمانے میں باری کے بخار کے لیے استعمال کی جانے والی لاطینی امریکی ملک پیرو سے درآمد کردہ سنکونا درخت کی چھال کا استعمال تھا۔
ہانیمن نے کتاب کی دوسری جلد کے ترجمے میں صفحہ نمبر 108 کے حاشیے پر لکھا، ’سب سے کڑوی دوا اور خون روکنے کی سب سے سخت دوا کو اگر بہت کم مقدار میں ملایا جائے تو اس میں یہی دو خصوصیات چھال سے زیادہ پیدا ہو جائیں گی۔‘
آگے چل کر ہانیمن اسی حاشیے پر لکھتے ہیں کہ ’میں نے کئی دنوں تک بطور تجربہ سنکونا کی چار ڈرام خوراک دن میں دو بار لی۔ پہلے میرے پاؤں اور انگلیوں کے سرے ٹھنڈے پڑے، پھر میں نڈھال اور غنودہ ہو گیا، پھر میری دھڑکن تیز ہو گئی، نبض سخت اور تیز ہو گئی۔۔۔ قصہ مختصر، باری کے بخار کی تمام علامات میرے اندر پیدا ہو گئیں۔ میں نے دوا کھانا چھوڑ دی اور میں روبصحت ہو گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنکونا کو بخار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد میں اسی سنکونا سے کونین تیار کی گئی جسے ایک عرصے تک دنیا بھر میں ملیریا کے علاج کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے اور اسے سے کڑوی گولی بھی جاتا تھا۔
بخار ختم کرنے والی دوا سے بخار پیدا ہو گیا، اس سے ہانیمن کو خیال آیا کہ بیماری کا علاج وہی بیماری پیدا کرنے والے اجزا ہو سکتے ہیں۔ یہی ہومیوپیتھی کا بنیادی اصول ہے۔ ہومیو کا مطلب ایک جیسا، اور پیتھی، بیماری۔ انگریزی میں اس اصول کو Like cures like کہا جاتا ہے اور اردو فارسی میں علاج بالمثل۔ یعنی آگ کا علاج آگ سے، لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ سنکھیا کے مریض کا علاج سنکھیا کی کم مقدار میں خوراک سے کیا جا سکتا ہے، وغیرہ۔
ہیومیوپیتھی کو تیزی سے فروغ ملا، اور دس سال کے اندر اندر یورپ اور امریکہ میں سینکڑوں ہومیوپیتھک کلینک کھل گئے اور درجنوں کالجوں میں اس کے اصول پڑھائے جانے لگے۔
چند برس بعد ہانیمن نے ایک اور مفروضہ پیش کیا کہ دوا کی خوراک جتنی ہلکی ہو، اس کی تاثیر اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے اس نئے طریقۂ علاج کے بارے میں آرٹیکل اور کتابیں لکھ کر اسے پھیلانا شروع کر دیا اور خود اس کی پریکٹس شروع کر دی۔ نئی نئی چیز تھی، اس لیے اسے مقبولیت ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہومیوپیتھی کا لفظ عام و خاص کی زبان پر چڑھ گیا۔
تاہم جیسا کہ ہوتا آیا ہے، مقامی ڈاکٹروں اور حکیموں کو ہانیمن کی یہ شہرت ایک آنکھ نہیں بھائی، اور ان کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ہومیوپیتھی کے حق میں دلائل دکھاؤ۔ دلائل ہوتے تو ملتے، اس لیے انہی سازشوں سے تنگ آ کر ہانیمن نے لائپزگ کو خیرباد کہہ دیا اور مختلف جگہوں پر قیام کرنے کے بعد آخرکار پیرس جا بسے، اور وہیں 1843 کو ان کا 88 برس کی عمر میں انتقال ہوا۔
یہ یاد رہے کہ یہ 18ویں صدی تھی۔ ابھی میڈیکل سائنس، کیمسٹری، فزکس اور دوسرے علوم ابھی گھٹنوں گھٹنوں چل رہے تھے۔ جس وقت ہانیمن نے ہومیوپیتھی کا اصول ’دریافت‘ کیا، اس وقت:
- ابھی بےہوشی کی دوا دریافت نہیں ہوئی تھی اور آپریشن کے لیے تین چار مضبوط لوگ مریض کو سختی سے جکڑ کر رکھتے تھے
- ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ جراثیم بیماریاں پیدا کرتے ہیں، اس لیے سرجری کے آلات کو جراثیم سے پاک کرنے کا بھی کوئی تصور نہیں تھا
- ابھی یہ پتہ نہیں تھا کہ تمام جاندار خلیوں سے مل کر بنے ہیں، اور عام نظریہ یہ تھا کہ بےجان چیزوں سے جاندار پیدا ہو سکتے ہیں
- یہ تک معلوم نہیں ہوا تھا کہ ہر چیز ایٹموں سے مل کر بنی ہے، یہ بات جان ڈالٹن نے 20 سال بعد بتائی، نہ یہ معلوم تھا کہ پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن سے مل کر بنتا ہے
یہ وہ دور تھا جب جونکیں لگانا، خون بہانا، جلاب دینا جیسے طریقے عام طور پر رائج تھے۔ عام دوائیں پارہ اور سنکھیا جیسے خطرناک زہر تھے، جو فائدے کی بجائے الٹا نقصان پہنچاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ جوق در جوق ہومیوپیتھی کو اپنانے لگے کیوں کہ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا، اس زمانے کے اکثر دوسرے طریقۂ علاج انتہائی بھیانک اور خطرناک تھے اور کئی دفعہ مریض کی جان لے کر ٹلتے تھے۔ یہ اسی دور کی میراث ہے کہ لوگ کہتے ہیں، ہومیوپیتھی اثر نہیں کرتی تو کیا ہوا، نقصان بھی تو نہیں دیتی۔
طرح طرح کے طریقۂ علاج
ایسا نہیں تھا کہ 18ویں صدی میں ہانیمن اکیلے ہوں جنہوں نے طریقۂ علاج کا کوئی نیا نظریہ پیش کیا ہو۔ اسی زمانے میں بھانت بھانت کے طبی اصول اور نظریات سامنے آ رہے تھے۔ مثال کے طور پر سکاٹ لینڈ کے جان براؤن نے نظریہ پیش کیا کہ بیماریاں صرف دو قسم کی ہوتی ہیں، طاقتور اور کمزور، اور ان کے علاج کے لیے دو ہی قسم کی دوائیں استعمال کی جا سکتی ہیں، جگانے والی اور سلانے والی۔ اس کے نزدیک دو دوائیں سب سے اہم تھیں، شراب اور افیم۔
خود ہانیمن نے ہومیوپیتھی کی ایجاد کے چند برس بعد نظریہ پیش کیا کہ اکثر بیماریاں کافی پینے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ ایک مضمون میں انہوں نے کافی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی فہرست لکھی: قبض، نامردی، بلغم، آنکھوں کے گرد حلقے، ماہواری کی تکلیف، بےخوابی، چھاتی میں خرخراہٹ، دانت میں کیڑے لگنا، السر، وغیرہ وغیرہ۔
اس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ہانیمن کے ذہن میں ہومیوپیتھی کا خیال آیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ خیال سائنس کی تمام ترقی کے باوجود ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہے اور نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا کہ ہومیوپیتھی کے اصول کی کوئی عقلی بنیاد بھی ہے، حالانکہ سائنس اس قسم کے تمام اصولوں کو کب کا مسترد کر چکی ہے۔
ہومیوپیتھی کے بارے میں جدید سائنسی فیصلے کی بات ہم نیچے پیش کر رہے ہیں، پہلے یہ جان لیجیے کہ ایسا نہیں ہے کہ اسی وقت سے سبھی لوگ ہومیوپیتھی کے قائل تھے۔ کچھ ایسے تھے جو شروع ہی میں اس کی اصل بھانپ گئے تھے۔ چنانچہ برطانوی ملکہ وکٹوریہ کے ڈاکٹر سر جان فوربز نے کہا تھا کہ ہومیوپیتھی ’انسانی عقل کی بےحرمتی ہے۔‘
1842 میں امریکی ڈاکٹر اولیور وینڈل ہومز نے ہومیوپیتھی کے خلاف کتاب لکھ کر ثابت کیا کہ اس طریقۂ علاج کے دعوے باطل ہیں۔
آج کے دور میں ہومیوپیتھی کی سائنسی حیثیت کیا ہے؟
برطانیہ کی پارلیمان کے زیرِ ایوان یعنی دارالعوام نے ہومیوپیتھی کے اداروں اور ہومیوپیتھی کے مخالفین دونوں سے دلائل طلب کیے، اور ان کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ ہومیوپیتھی کی تاثیر کے کوئی شواہد نہیں ہیں، اور ہومیوپیتھی کی ادویات کو دوا ہی نہیں کہنا چاہیے۔ برٹش ہومیوپیتھک ایسوسی ایشن نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی مگر جون 2018 میں وہ بھی مسترد ہو گئی۔
برطانیہ کے قومی صحت کا ادارے این ایچ ایس کا کہنا ہے: ’ہومیوپیتھی کا اثر جاننے کے لیے بڑے پیمانے پر تحقیقات کی گئی ہیں۔ اس بات کے معیاری شواہد نہیں ہیں کہ ہومیوپیتھی کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے مفید ہے۔‘
آسٹریلوی حکومت کا طبی تحقیق کا سرکاری ادارے نیشنل ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ کونسل کا کہنا ہے: ’ہومیو پیتھی کو پرانی بیماریوں اور سنگین بیماریوں کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے یا وہ بیماریاں کے لیے جو بگڑ سکتی ہوں۔ وہ لوگ جو ہومیوپیتھی استعمال کرتے ہیں وہ اپنی صحت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں کیوں کہ وہ علاج کو مسترد یا موخر کر رہے ہیں۔‘
یہ ادارہ اس نتیجے تک کیسے پہنچا؟ اس مقصد کے لیے اس نے دنیا بھر سے 176 ریسرچ سٹڈیز کا بھرپور جائزہ لیا جو ہومیوپیتھی کے ادویات کا اثر جاننے کے لیے کی گئی تھیں۔
اس جائزے کے بعد ادارے نے فیصلہ جاری کیا: ’اس بات کوئی قابلِ اعتماد شواہد نہیں ہیں کہ ہومیوپیتھی مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے مفید ہے۔‘
روس کی اکیڈمی آف سائنسز نے بیان جاری کیا ہے کہ ’ہومیوپیتھی کی روس کے قومی صحت کے نظام میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ ہم وزارتِ صحت کو دوسرے اداروں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ہومیوپیتھی کے ادویات پر لازمی لیبل لگوائیں کہ ہومیوپیتھی ثابت شدہ علاج نہیں ہے تاکہ ’شہریوں کو غلط تشہیر سے بچایا جا سکے۔‘
روسیوں نے تو فقط سوچا کہ ہومیوپیتھی کی دواؤں کے ڈبوں پر لیبل ہونا چاہیے، امریکہ میں یہ لیبل پہلے سے چسپاں کیے جا رہے ہیں۔ چنانچہ امریکہ میں بکنے والی ہومیوپیتھی کی ہر دوا کے ڈبے پر لکھا ہوتا ہے:
This product is not intended to treat, cure, prevent or diagnose any disease.
ترجمہ: ’یہ پراڈکٹ کسی بھی بیماری کے علاج، مکمل شفا یا تشخیص کے لیے نہیں ہے۔‘
یورپ، جہاں سے ہومیوپیتھی کا آغاز ہوا، وہاں ایک ادارہ کام کرتا ہے، یورپین اکیڈمیز سائنس ایڈوائزری کونسل۔ یہ یورپی یونین میں شامل ملکوں کے علاوہ ناروے اور سوئٹزرلینڈ کی سرکاری سائنس اکیڈمیوں کی ایسوسی ایشن ہے۔ اس ادارے نے ہومیوپیتھی پر ہونے والی تمام تحقیق کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ لکھی، جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا:
’ہومیوپیتھی کے سائنسی دعوے غیر معقول اور کیمسٹری اور فزکس کے مسلمہ اصولوں سے متصادم ہیں۔ ہومیوپیتھک مصنوعات کی وجہ سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے کیوں کہ مریض مناسب، شواہد پر مبنی طبی علاج کروانے میں تاخیر کرتا ہے یا کبھی علاج کرواتا ہی نہیں۔‘
معتبر برطانوی طبی جریدے ’دا لانسٹ‘ نے بھی ہومیوپیتھی پر ایک جامع تحقیق کی۔ انہوں نے 220 کلینکل ٹرائلز کا باریک بینی سے جائزہ لیا، جن میں سے نصف میں اصل ادویات اور نصف میں ہومیوپیتھی کے نسخے استعمال کیے گئے تھے۔ معلوم ہوا کہ ہومیوپیتھی کا اثر اتنا ہی ہے جتنا پلیسیبو یا نقلی دوا کا۔
’فائدہ نہ سہی، ہومیوپیتھی نقصان بھی تو نہیں کرتی؟‘
ہم نے اوپر ذکر کیا کہ ابتدا ہی سے لوگ یہ کہتے چلے آئے ہیں کہ ہومیوپیتھی اگر فائدہ نہیں دیتی تو نقصان بھی تو نہیں دیتی، پھر اس کے استعمال میں کیا قباحت ہے؟
قباحت ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہومیوپیتھی کو موثر سمجھ کر کسی بیماری کا علاج کرواتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اصل علاج سے غفلت برت رہا ہے۔ اگر ہومیوپیتھک دوا کے کوئی مضر اثرات نہ بھی ہوں (اور یہ بات بھی ثابت شدہ نہیں ہے) تب بھی علاج میں تاخیر سے مرض اتنا بڑھ سکتا ہے کہ جب وہ اصل علاج کی طرف آئے تو اس وقت تک مریض کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہو۔
ذاتی تجربہ دوسروں کے لیے مثال نہیں بن سکتا
سوال یہ ہے کہ جب تین سو سال میں ہومیوپیتھی کے اثر کے کوئی قابلِ قبول شواہد نہیں پیش کیے جا سکے تو دنیا بھر میں کروڑوں لوگ اس کی ادویات کیوں استعمال کرتے ہیں؟
آپ ہومیوپیتھی کے کسی قائل سے یہی سوال کریں تو وہ کہے گا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھے فلاں بیماری ہو گئی۔ یا میری ساس کی جیٹھانی نے فلاں ہومیوپیتھک دوا لی تو ان کا فلاں فلاں مرض دور ہو گیا گویا کبھی تھا ہی نہیں۔
سائنس نے پچھلے دو سو برسوں میں سیکھا ہے کہ طب اس طرح سے کام نہیں کرتی۔ کسی ایک شخص کا ذاتی تجربہ دوسروں کے مثال نہیں بن سکتا کیوں کہ وہ تجربہ سائنسی بنیادوں پر نہیں کیا گیا، اس لیے کیا پتہ اس ایک شخص کا مرض کیوں ٹھیک ہو گیا۔ انسان کا مدافعتی نظام دن رات بیماریوں کے خلاف لڑتا رہتا ہے، عمومی طور پر وہ خود ہی مریض کو ٹھیک کر دیتا ہے، اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ہومیوپیتھی کے علاج سے ٹھیک ہوئے ہیں۔
دو واقعات کے درمیان تعلق کیسے جانچیں؟
یہ ایسا ہی کہ کسی ایک شخص کی منڈیر پر کوا بولا اور اسی وقت مہمان گھر آ دھمکے تو اس نے ان دونوں کے درمیان تعلق فرض کر لیا اور بات مشہور ہو گئی کہ کوا بولے تو گھر میں مہمان آتے ہیں۔ اس چیز کو توہم پرستی کہتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر عقل یہ کہتی ہے کہ اگر ایک واقعے کے بعد دوسرا واقعہ ہوا ہے تو لازمی نہیں کہ پہلے واقعے کی وجہ سے دوسرا ہوا۔ انگریزی میں اسے کہتے ہیں: Correlation is not causation یہ محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔
تو پھر آگے پیچھے ہونے والے دو دونوں واقعوں کے درمیان تعلق کیسے جانچا جائے؟ فرض کیجیے آپ کے گھر کے ایک کمرے میں ایک کلاک نصب ہے، دوسرے کمرے میں ایک اور کلاک، جو پہلے سے دس سیکنڈ پیچھے ہے۔ جب گھنٹہ پورا ہوتا ہے تو پہلے ایک کلاک بجتا ہے، دس سیکنڈ کے بعد دوسرا بجنا شروع ہو جاتا ہے، اور ایسا بار بار ہوتا رہتا ہے۔
اگر کسی شخص کو کلاک کا مکینزم پتہ نہ ہو تو وہ گمان کر سکتا ہے کہ پہلے کلاک کی وجہ سے دوسرا بجا ہے۔ لیکن یہ گمان کرنا سائنسی طریقۂ کار نہیں ہے۔ اس کے لیے آپ پہلے کلاک کو بند کر کے، یا اس کا وقت آگے پیچھے کر کے، یا اور ایسا ہی کوئی اور طریقہ استعمال کر کے آزما سکتے ہیں کہ اس کے بعد بھی دوسرا کلاک دس سیکنڈ بعد بجتا ہے، تب جا کر دونوں کے درمیان علت و معلول (کاز اینڈ ایفیکٹ) کا تعلق قائم ہو گا، ورنہ ثابت ہو جائے گا کہ دونوں کے بجنے کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ یہی سائنسی طریقۂ کار ہے۔
اس لیے اگر کسی کے سر میں درد ہے جو ہومیوپیتھی کی دوا استعمال کرنے کے بعد زائل ہو بھی گیا تو یہ لازم نہیں آتا کہ ایسا ہومیوپیتھی کی وجہ سے ہوا ہے، اس کی بہت سی اور وجہیں ہو سکتی ہیں۔ جسم خود بیماریوں سے مسلسل لڑتا رہتا ہے اور خود ہی بیماریوں کو ٹھیک کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے امراض کا دورانیہ محدود ہوتا ہے، وہ اپنی مدت پوری کر کے خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔
تو پھر کسی دوا کی تاثیر کیسے معلوم کی جائے؟
اس مقصد کے لیے طبی سائنس نے پچھلے تین سو برس میں ایک طریقہ دریافت کیا ہے اور اس طریقے کو بار بار استعمال کر کے نکھارا ہے، چمکایا ہے، ریفائن کیا ہے، اس کی خامیاں دور کی ہیں، اور اسی کے تحت دنیا میں پیش کی جانے والی تمام ادویات کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔
آسان الفاظ میں سمجھ لیجیے کہ آپ نے کرونا وائرس کے خلاف ایک دوا ایجاد کی ہے اور آپ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کتنی موثر ہے۔ آپ ایسا کیجیے کہ کرونا کے مریضوں کے دو گروپ بنا لیجیے۔ جتنا بڑا گروپ، اتنا کامیاب تجربہ۔ سینکڑوں مریض ہوں تو ٹھیک ہے، ہزاروں ہوں تو اور بھی اچھا۔ کوشش کریں کہ دونوں گروپوں میں مختلف عمروں، نسلوں، صنفوں اور صحت کے لوگوں کو شامل کیا جائے۔ وہ ٹرائل جو صرف عورتوں پر ہو، یا صرف بوڑھے لوگوں پر، یا صرف دبلے پتلے افراد پر، وہ ہر کسی کے لیے کارگر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
آپ کو معلوم ہو گا کہ حال میں دنیا میں کرونا کے علاج کے لیے مختلف ویکسینیں تیار کی گئی ہیں۔ امریکی کمپنی موڈرنا کی ویکسین کے تجربات 30 ہزار، فائزر کے 44 ہزار اور ایسٹرا زینیکا کے ٹرائل 65 ہزار لوگوں پر کیے گئے اور اس دوران بڑی احتیاط سے بچوں کو چھوڑ کر ہر قسم کے لوگوں کو شامل کیا گیا تاکہ جب پوری آبادی کو ویکسین لگے تو پہلے سے معلوم ہو کہ مختلف لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آپ کے دونوں گروپ تیار ہو گئے تو اب ایسا کیجیے کہ ان میں سے ایک گروپ کو اصل دوا دیں جو آپ نے آپ نے ایجاد کی ہے، اور نصف حصے کو اسی دوا سے ذائقے اور شکل میں ملتی جلتی نقلی دوا (جسے placebo کہتے ہیں) کھلائیں، اور یہ احتیاط کریں کہ دونوں میں سے کسی گروپ کو پتہ نہ چلے کہ کس کو اصل دوا ملی ہے اور کس کو پلیسیبو (پلیسیبو کے بارے میں مزید تفصیل اور اس کا ہومیوپیتھی سے تعلق نیچے آ رہا ہے)۔ اس کے بعد کئی مہینوں تک دو گروپوں کا بغور معائنہ کریں، بار بار ان کے ٹیسٹ کریں، پی سی آر، خون کے ٹیسٹ، ای سی جی، بلڈ پریشر، ہر چیز دیکھیں اور اس کا ریکارڈ رکھیں۔ دونوں گروپوں کے مریضوں کے اندر کیا علامات آئیں، کتنے لوگ ٹھیک ہوئے، کتنے چل بسے، کتنوں کے سر میں درد ہوا، معدے کی تکلیف ہوئی، بےخوابی کی شکایت ہوئی، ایسی تمام چیزیں احتیاط سے نوٹ کریں۔
اب آپ کے پاس ڈیٹا آ جائے گا کہ دوا والے گروپ اور پلیسیبو والے گروپ میں کیا فرق دیکھنے میں آ رہا ہے۔
جب آپ مطمئن ہو جائیں کہ جس گروپ کو دوا دی گئی تھی اس میں اچھے نتائج آئے ہیں تو آپ تمام نتائج سرکاری محکمے کو پیش کریں کہ وہ آپ کی دوا کو منظور کرے۔ اگر آپ نے مناسب طریقے سے ڈیٹا اکٹھا کیا ہے تو آپ کی فائل لاکھوں صفحات پر مشتمل ہو گی۔ امریکہ میں اس قسم کا ادارہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ہے، جس کے اپنے ماہرین کا پینل ہے، جو کمپینوں کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا کی مہینوں اور بعض اوقات سالوں کی چھان بین کے بعد فیصلہ کرتا ہے کہ آیا دوا کو منظور کیا جائے یا نہیں۔
یہ وہ چھلنی ہے جس سے گزر کر کوئی بھی دوا کمپنی کی لیبارٹری سے نکل کر میڈیکل سٹور کے شیلف تک پہنچتی ہے۔
جیسا کہ اوپر دنیا کے مختلف ملکوں کا مشترکہ فیصلہ ہے، ہومیوپیتھی کا آج تک کوئی ایسا ٹرائل نہیں ہوا جو مسلمہ طبی اصولوں کے تحت ہوا ہو اور اس میں کسی ہومیوپیتھک دوا نے کسی بھی مرض کا کامیابی سے علاج کیا ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے اولین سائنسی طریقے سے کیے جانے والے ٹرائلز میں سے ایک ہومیوپیتھی والوں نے 1835 میں جرمنی کے شہر نورمبرگ میں کروایا تھا اور اس میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا تھا جیسے ہم 20ویں صدی کے ٹرائلز میں دیکھتے ہیں۔
اصل میں ہومیوپیتھی کے ماننے والوں اور انکار کرنے والوں کے درمیان ٹھن گئی تھی جس کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ ٹرائل کیا گیا۔ اس ٹرائل میں اخباروں کے ذریعے عوام کو حصہ لینے کی دعوت دی گئی۔ 120 لوگ ایک ہوٹل میں جمع ہو گئے۔ انہیں سو شیشیاں دی گئیں جن میں سے نصف میں ہومیوپیتھک دوا اور نصف میں سادہ پانی تھا۔
افسوس کہ یہ ٹرائل ہومیوپیتھی کے فوائد دکھانے میں ناکام رہا، اور جب اس کے نتائج چھپے تو ان میں لکھا تھا کہ ہومیوپیتھ اپنی دوا کے جو فائدہ بتاتے ہیں وہ اگر کھلا فراڈ نہیں تو تخیل اور خود فریبی پر ضرور مبنی ہے۔
ہومیوپیتھی کے محلولوں کا معاملہ
ہومیوپیتھی کو رد کرنے کے لیے ایک اور معاملہ بھی بےحد دلچسپ ہے۔ اس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو دوا جتنی زیادہ محلول بنائی جائے (ڈائلیوٹ کی جائے)، اس کا اثر اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک چمچ نمک کے لیے اسے ایک گلاس پانی میں حل کیجیے۔ اس کے بعد اس گلاس سے ایک چمچ لے کر اسے سادہ پانی کے گلاس میں ملا لیجیے۔
عقل کہتی ہے کہ نمک کی مقدار اور محلول کی نمکینی کم ہو جائے گی، لیکن ہومیوپیتھی کا دعویٰ ہے کہ اس نئے محلول کی شدت اور تاثیر کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہے۔ اس کو وہ پوٹینسی (Potency) کہتے ہیں۔ وہ دو گلاسوں پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ اس عمل کو سینکڑوں بار تک دہراتے ہیں، اور اپنے تئیں دوا کی شدت بڑھاتے چلے جاتے ہیں، جب کہ عقل کے مطابق بہت جلد ایسا مرحلہ آ جاتا ہے کہ محلول میں دوا کا کوئی مقدار تو کیا، اس کا ایک ایٹم تک باقی نہیں رہتا۔
ہومیوپیتھی والے کہتے ہیں کہ اصل میں دوا کا اثر پانی میں منتقل ہو جاتا ہے۔ جب ان سے پوچھیں کہ اس کے شواہد کیا ہیں تو وہی آئیں بائیں شائیں۔ اگر واقعی پانی کے اندر کوئی ایسی خصوصیت ہوتی تو زمین پر اربوں برس تک پانی سے بخارات بننے، برف یا بارش میں منتقل ہونے، دریاؤں، ندی نالوں میں بہنے اور سمندر میں موج در موج چلتے رہنے کے علاوہ عظیم الشان زلزلوں، زمین سے شہابِ ثاقب کے ہولناک ٹکراؤ، اور دیگر زبردست واقعات کے پانی پر اتنے اثرات منتقل ہونے تھے کہ ان کی گنتی مشکل ہو جاتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جنابِ ہانیمن کے دور میں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ پانی آکسیجن کے ایک اور ہائیڈروجن کے دو ایٹموں کا مرکب ہے، بلکہ یہ تک پتہ نہیں تھا کہ ایٹم یا مالیکیول کیا ہوتا ہے، تو انہیں یہ کیسے خبر ہوئی کہ پانی پر دوا کے اثرات نقش ہو جاتے ہیں؟
اگر واقعی ایسی کوئی بات ہوتی تو پانی (یا الکوحل) کو معلومات کی سٹوریج کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ جس طرح ہارڈ ڈسک میں ڈیٹا سٹور کیا جاتا ہے، اس سے کہیں سستا پڑتا اگر پانی کے گلاس میں معلومات بھر کر بعد میں اسے رِیڈ کر لیا جاتا۔
تو پھر بہت سے لوگ ہومیوپیتھی پر کیوں یقین رکھتے ہیں؟
یہ سوال اہم ہے کہ اگر ہومیوپیتھی کی کوئی عقلی یا سائنسی بنیاد نہیں ہے اور آج تک اس طریقۂ علاج کی کسی ایک دوا کے بارے میں ثابت نہیں ہو سکا کہ اس کے کسی بھی بیماری پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں تو پھر دنیا میں کروڑوں لوگ اس پر کیوں یقین رکھتے ہیں اور دھڑلے سے نہ صرف خود استعمال کرتے ہیں، بلکہ دوسروں کو اس کی تبلیغ بھی کرتے ہیں؟
جواب سادہ ہے۔ دنیا میں ہومیوپیتھی کے مداحوں سے کہیں زیادہ لوگ جنتر منتر، جھاڑ پھونک، جوتش، ستاروں کی چال، زائچہ، علمِ جفر، ہاتھوں کی لکیروں، ٹیرو کارڈ، روحوں سے ملاقات، وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں۔ جن نکالنے کے لیے پیر فقیر جو کچھ کرتے ہیں، اس کی خبروں سے اخبار بھرے پڑے ہوتے ہیں، پھر بھی لوگوں کی بڑی تعداد اس پر بھی یقین کر لیتی ہے۔ آج بھی نوٹ یا زیور ڈبل کرنے والے ڈبل کرنے والے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کو شیشے میں اتار ہی لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ رنگوں سے علاج، شعاعوں سے علاج، روشنی سے علاج۔۔۔ اس سائنسی دور میں بھی پتہ نہیں کون کون سے علاج کے الم غلم طریقے دنیا بھر میں رائج ہیں، اور کروڑوں لوگ ان کے قائل ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں آپ نے بھارت میں لوگوں کو کرونا سے شفا پانے کے لیے اپنے جسموں پر گوبر کا لیپ کرتے دیکھا ہو گا۔ سو توہم پرستی کی کوئی حد نہیں۔
اخباروں میں ’آپ کا یہ ہفتہ کیسے گزرے گا‘ کے عنوان سے کالم چھپتے ہیں اور کروڑوں مرد و عورت انہیں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں اور ان سے زندگی کی رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سینکڑوں میں سے ایک بات اتفاق سے درست ہو جائے تو لوگ زندگی بھر کے لیے اس کے پیروکار بن جاتے ہیں۔
کھلاڑیوں کے بارے میں آپ نے سنا ہو گا کہ انہوں نے قسماقسم کے توہم پالے ہوئے ہیں۔ سچن ٹنڈولکر بیٹنگ کے جاتے تھے ہمیشہ بائیں پیڈ پہلے پہنتے تھے۔ سٹیو وا نیک شگون کے لیے میچ کے دوران ہمیشہ جیب میں سرخ رنگ کا رومال رکھتے تھے۔ اسی طرح سارو گنگولی ٹیسٹ میچ کے دوران کبھی شیو نہیں کرتے تھے کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے ان کی بیٹنگ متاثر ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا کرنے سے واقعی ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہو، کیوں کہ یہ پلیسیبو ایفیکٹ (تفصیل نیچے) کی ذیل میں آتا ہے۔ فرض کیا پچھلی بار آپ نے ایک بیٹ سے کھیل کر سینچری بنائی تھی اور آپ کے ذہن میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ سینچری میں اس بیٹ کا بڑا کردار تھا۔ اگلے میچ میں وہ بیٹ کہیں ادھر ادھر ہو گیا اور آپ کریز میں گئے تو ذہن میں مسلسل وہی خیال چکرا رہا تھا کہ پتہ نہیں کھیل سکوں گا یا نہیں، آج تو دوسرا بیٹ ہے۔ اسی چکر میں آپ آؤٹ ہو گئے تو یہ خیال پتھر کی لکیر ہو گیا کہ سینچری اسی بیٹ کی وجہ سے بنی تھی اور آج صفر پر آؤٹ ہونے کی وجہ دوسرا بیٹ ہے۔
یہ سارے پڑھے لکھے عالمی شہرت یافتہ لوگ ہیں، جن کی رسائی مستند ترین معلومات تک ہے، اگر ان کا یہ حال ہے تو پھر اس میں کیا حیرت کہ آج کی دنیا میں بھی بہت سے لوگ ہومیوپیتھی کا دم بھرتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ہومیوپیتھی کے 100 پوٹینسی والے محلول میں اصل دوا کا ایک ایٹم تک نہیں ہوتا، اسی طرح اس ’طریقۂ علاج‘ کی سوا دو سو سالہ تاریخ میں تاثیر کا کوئی ذرہ تک نہیں پایا جاتا۔
پلیسیبو ایفیکٹ
ہومیوپیتھی کا جو بھی اثر ہے (اگر کوئی ہے تو) وہ سراسر پلیسیبو ایفیکٹ کے باعث ہوتا ہے۔ پلیسیبو (placebo) نقلی دوا کو کہتے ہیں کہ جو کسی کلینیکل ٹرائل میں استعمال کی جاتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہن بےحد طاقتور عضو ہے اور وہ جعلی دوا کو بھی اصل سمجھ کر ایسا نیورو بائیالوجیکل ردعمل دکھاتا ہے اور جسم کو حکم دیتا ہے کہ تمہارا علاج ہو چکا ہے اب تم ٹھیک ہو جاؤ۔
بعض اوقات اس کے ویسے ہی اثرات دیکھنے میں آتے ہیں جیسے اصل دوا دی گئی ہو۔ حتیٰ کہ بعض صورتوں میں پلیسیبو ایفیکٹ میں سائیڈ ایفیکٹ بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔
یہ عمل صرف ہومیوپیتھی سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ہم نے اوپر جھاڑپھونک، جنتر منتر اور دوسری چیزوں کا ذکر کیا، ان کا بھی وہی پلیسیبو ایفکیٹ ہوتا ہے اور بہت سے لوگ اعتقاد کی طاقت ہی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ بلکہ یہ تک دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی مریض کو ایک دوا انجیکشن کے ذریعے یا گولیوں کی صورت میں دی جائے تو انجیکشن کا اثر زیادہ دیکھنے میں آتا ہے کیوں کہ مریض سمجھتا ہے کہ ٹیکے کو بہتر علاج سمجھ لیتا ہے۔ اسی طرح مہنگی دوا کا بھی اثر سستی دوا سے زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اگر پلیسیبو ایفیکٹ حقیقت ہے تو پھر ہومیوپیتھی پر اعتراض کیوں؟
وہ اس لیے کہ یہ ایفیکٹ بعض چھوٹی موٹی بیماریوں کی معمولی علامات تک محدود ہے۔ کھانسی، نزلہ، زکام، بےچینی، وغیرہ کے لیے تو ٹھیک ہے، لیکن یہ جان لیوا جراثیم کا قلع قمع نہیں کر سکتا، نہ کسی خطرناک رسولی کو سکیڑ سکتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ پلیسیبو ایفیکٹ وقتی اور لمحاتی اور ناقابلِ اعتبار ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ کام کرتا ہے، بعض اوقات بالکل صفر ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس پر بھروسہ کر سنگین بیماریوں کا علاج نہیں کیا جا سکتا، بلکہ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا، یہ بےحد خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین کرنے والی ہے کہ اصل دوا میں بھی پلیسیبو ایفیکٹ موجود ہوتا ہے، یعنی اصل دوا جسم پر بھی اثر دکھاتی ہے اور دماغ بھی ساتھ ہی ساتھ اپنا کام کر کے جسم کو ہدایات دے رہا ہوتا ہے۔ اسے کہتے ہیں آم کے آم گٹھلیوں کے دام!