1980 کی دہائی میں جنرل ضیاالحق کے دورہِ آمریت میں فنکاروں خصوصا گلوکاروں کے خلاف بدترین کریک ڈاؤن کے دوران بھی ایک پشتو گلوکار کی پشاور میں جمنے والی نجی محفلیں سامعین سے کھچا کھچ بھری رہتی تھیں۔
یہ گلوکار سردارعلی ٹکر تھے، جو رواں سال پشتو موسیقی کے لیے خدمات کے صلے میں حکومت کا سب سے اعلیٰ سول ایوارڈ ’تمغہ امتیاز‘ وصول کرنے طویل عرصہ بعد پاکستان آئے۔
تقریبا ایک دہائی قبل ٹکر اور ان کا خاندان عسکریت پسندوں کے ایک حملے کے بعد کینیڈا اور پھر امریکہ ہجرت کر گئے تھے۔ 2009 میں اسلام آباد میں ہونے والے اِس حملے میں ان کی ایک بیٹی زخمی ہوئی تھی۔
اس حوالے سے عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سردار علی ٹکر کا کہنا تھا کہ اُن نامساعد حالات میں ہجرت کر جانا ہی درست فیصلہ تھا۔
’جب میں خود سے پوچھتا ہوں کہ اگر میرے خاندان کے کسی ایک فرد کے ساتھ کچھ برا ہو جاتا تو وہ مجھ سے سوال کرنے میں حق بجانب ہوتے کہ میں نے ان کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیا تھا۔‘
پاکستان کے ایک معتبر انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق 2008 سے 2017 کے دوران مقامی طالبان عسکریت پسندوں نے کم از کم 13 نمایاں فنکاروں کو، جن میں اکثریت پشتون خواتین گلوکاروں کی تھی، بے دردی سے قتل کیا۔
ان فنکاروں میں سے بیشتر کو پشاور یا اس کے قریبی علاقوں میں ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان بدترین شورش کا شکار تھا۔
2016 میں عسکریت پسندوں نے معروف قوال امجد صابری کو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا، سردارعلی ٹکر بھی صابری کی طرح صوفیئزم کا پرچار کرتے ہیں جو اسلام کا ایک معتدل چہرہ ہے لیکن طالبان اس کے سخت مخالف ہیں۔
انہی حالات سے دلبرداشتہ ہو کر سردارعلی اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ 2010 میں کینیڈا چلے گئے ۔
جلد ہی اس معروف پشتو گلوکار کی امریکی درالحکومت واشنگٹن میں آمد کی خبریں پھیل گئیں، جہاں امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ کے دیوا ریڈیو نے ان کو ملازمت کی پیشکش کی اور اب ٹکر ایک ریڈیو پروگرام کی میزبانی کرتے ہوئے پشتو موسیقی، برداشت اور صوفیئزم کی ترویج کرتے ہیں۔
ان کے اکثر مداحوں کا تعلق پاک ۔افغان سرحد کے دونوں جانب آباد پشتون علاقوں سے ہے، جہاں وہ انٹرنیٹ پر سردار علی کا پروگرام شوق سے سنتے ہیں۔
مردان کے روایتی حجرے میں دیے گئے انٹرویو میں 62 سالہ ٹکر نے امام غزالی کے مشہور قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’موسیقی دلوں کی سختی دور کرتی ہے‘۔
انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ افغانستان کے اندر طالبان دور میں موسیقی کو غیر قانونی سمجھا جاتا تھا لیکن پھر بھی طالبان ان کی مرتب کردہ دھنوں پر روائتی اٹن رقص کرتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سردار علی مکینیکل انجینیئر ہیں۔ انہوں نے موسیقی کو بطور مشغلہ شروع کیا تھا اور ان کی موسیقی کی تخلیقات جنرل ضیا الحق کے دور میں ہی منظرعام پر آئیں جن میں ان کی مشہور غزل ’گلہ مے زکہ اوکڑا‘ اپنے وقت کے بہترین شاہکاروں میں سے ایک تھی۔
سردار علی نے زیادہ تر 20ویں صدی کے معروف پشتو فلسفی شاعر خان عبدالغنی خان کا کلام گایا ہے جنہوں نے شاعری کے ذریعے مذہب میں شدت پسندی کی مخالفت کی۔
سردار علی ٹکر نے امریکہ واپسی تک مردان کے جس حجرے میں قیام کیا، وہاں سینکڑوں نوجوانوں کا رش لگا رہتا تھا جو ان کے گانوں اور ریڈیو پروگرام کے پرستار تھے۔
ٹکر نے فخریہ کہا: ’دیکھو مجھ سے ملنے والے کون ہیں، یہ وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں 30 سال سے بھی کم ہیں‘۔
سردار علی نے اپنے مہمانوں سے جذباتی خطاب میں کہا کہ وہ ماضی کو دفن کر کے فن اور ثقافت کو ایک اور موقع دیں۔ پھر انہوں نے اپنی مشہورغزل گائی اور ان کی آواز اس دھرتی پر ایک بار پھر گونجی جیسے انہوں نے دس برس قبل چھوڑ دیا تھا۔