11 ماہ میں 330 پولیس اہلکاروں کے جرائم میں ملوث ہونے پر کارروائی: ڈی آئی جی لاہور

ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران کے مطابق ’پولیس میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث اہلکاروں کی کوئی گنجائش نہیں۔ قانون کی بالادستی اور عوامی اعتماد کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل جاری رہے گا۔‘

ایک پولیس اہلکار 30 جولائی 2020 کو لاہور میں ناکے پر پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی / عارف علی)

لاہور پولیس کے ریکارڈ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی دو ماہ کے دوران مختلف جرائم میں ملوث ہونے پر پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف شہر کے مختلف تھانوں میں 18 مقدمات درج ہوئے ہیں۔

ان مقدمات میں چار سب انسپکٹرز، تین اے ایس آئی جبکہ 20 کانسٹیبلز مختلف جرائم میں باقاعدہ نامزد ملزم ہیں۔

ڈی آئی جی آپریشنز لاہور پولیس فیصل کامران کے مطابق ’گذشتہ 11 ماہ میں 330 پولیس اہلکاروں کے خلاف مختلف جرائم میں ملوث ہونے پر کارروائی کی گئی ہے۔ پولیس میرٹ اور خود احتسابی کے اصولوں پر سختی سے کاربند ہے۔ ہربنس پورہ موٹر سائیکل چوری میں ملوث جوڈیشل ونگ کے اہلکار عدنان کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔‘

لاہور میں پولیس نے موٹر سائیکل چوری کے حالیہ مقدمے میں پولیس ملازم محمد عدنان کو گرفتار کر کے محکمانہ کارروائی شروع کر دی ہے جب کہ اس حوالے سے سابق پولیس افسر عابد باکسر نے کہا کہ ’پہلے پولیس اہلکاروں کی تعداد کم ہوتی تھی اور احتساب کا عمل سخت ہوتا تھا۔ اس لیے پولیس افسر یا اہلکار جرائم میں ملوث نہیں ہوسکتے تھے۔ لیکن اب پولیس ملازمین کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے جبکہ احتساب کا عمل کمزور ہوچکا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں رشوت بھی بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔‘

پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمات

ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پولیس میں کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث اہلکاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ قانون کی بالادستی اور عوام کے اعتماد کو یقینی بنانے کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل جاری رہے گا۔ جس پولیس افسر یا اہلکار کے خلاف شکایات موصول ہوتی ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کے ساتھ محکمانہ کارروائی بھی فوری عمل میں لائی جاتی ہے۔ پولیس میں صرف وہی رہ سکتا ہے جو دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔‘

پولیس حکام کے دعوے اپنی جگہ لیکن محکمے کے اپنے ریکارڈ کے مطابق پولیس اہلکاروں پر سنگین وارداتوں میں ملوث ہونے کے مقدمات درج ہورہے ہیں۔ جن میں قتل، اغوا، بھتہ خوری، بدعنوانی، اختیارات سے تجاوز، فرائض میں غفلت برتنے اور ناقص تفتیش جیسے مقدمات شامل ہیں۔

ریکارڈ کے مطابق کینٹ ڈویژن میں پانچ، سٹی اور صدر ڈویژن میں پولیس اہلکاروں کے خلاف چار، چار مقدمات درج کیے گئے۔ ماڈل ٹاؤن ڈویژن میں تین، اقبال ٹاؤن ڈویژن میں پولیس ملازمین کے خلاف دو مقدمات کا اندراج کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ ایک ماہ کے دوران پہلے پولیس اہلکاروں کے ماڈل ٹاؤن سے ڈاکٹر کو اغوا کر کے اتوان وصول کرنے پر کارروائی کی گئی۔ اسی طرح میاں اسلم اقبال کے ڈیرے پر پولیس اہلکار کو سابق پولیس ملازم قتل کرنے پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔

محافظوں کو جرائم سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

عابد باکسر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پولیس افسران اور ملازمین کو صرف احتساب سخت کرنے سے ہی جرائم سے روکا جاسکتا ہے۔ جب کارروائی کا خوف ہوگا تو ہی جرائم کی طرف جانے سے خوف پیدا ہوسکتا ہے۔ ہمارے دور میں کوئی بھی پولیس افسر یا ملازم کسی قسم کا غیر قانونی کام کرتا تھا تو فوری تحقیقات شروع ہوجاتی تھیں۔ اگر کوئی قصور وار ٹھہرتا تھا تو فوری سزا دی جاتی تھی۔ لیکن کافی عرصے سے اب ایسا نہیں ہے کیونکہ احتساب کا عمل کمزور ہوچکا ہے۔ لہذا قانون میں تبدیلی لاکر پولیس اہلکاروں کے خلاف احتساب کا عمل مزید سخت بنایا جائے۔ ٹریننگ یا کونسلنگ اس کا حل نہیں ہے۔‘

عابد باکسر کے مطابق ’جتنے بھی پولیس ملازمین کے خلاف مقدمے درج ہوتے ہیں یا محکمانہ کارروائیاں ہوتی ہیں، ان کے بعد کسی کو سزا نہیں ملتی۔ وہ اعلیٰ افسران یا عدالتوں کے ذریعے دوبارہ بحال ہوجاتے ہیں یا کم از کم سزا سے بچ جاتے ہیں۔ کارروائی بھی انہی پولیس اہلکاروں کے خلاف دیکھنے میں آتی ہے جن کا کیس میڈیا پر یا سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ ہوتا ہے۔

’پھر اپنے ہی محکمے کے افسران ملازمین کے خلاف سخت کارروائی سے گریز کرتے ہیں۔ منشیات سمگلنگ میں پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے کی شرح میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے خلاف کارروائی ہوتی بھی ہے تو وہ منشیات فروشوں سے تعلقات کی بنیاد پر کام شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ سب انسپکٹر، حوالدار رینک کے اہلکار بھی کروڑوں پتی بن چکے ہیں۔ سیاسی سرپرستی بھی ایک اہم ترین پہلو ہے جس سے کارروائی کا خوف ملازمین میں کم ہوجاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان