کرونا (کورونا) کی وبا نے جہاں دنیا کی کئی صنعتوں کی جڑیں ہلا دی ہیں، وہیں شوبز کی دنیا خاص کر سینیما اس سے بہت بری طرح متاثر ہوا ہے جس کے سائے میں یہ دوسری عیدالفطر اور مجموعی طور پر تیسری عید ہے۔
پاکستان کی سسکتی ہوئی فلمی صنعت کے لیے عید اور بقرِعید کا موقع ہمیشہ ہی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں سینیما میں شاید ہی کوئی نشست خالی جاتی ہو۔
2019 میں عید الفطر کے ہفتے میں دو پاکستانی فلمیں ’رانگ نمبر 2‘ اور ’چھلاوا‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی جنہوں نے، پروڈیوسرز کے مطابق، بالترتیب 12 کروڑ اور سوا 11 کروڑ روپے باکس آفس پر سمیٹے۔ اس دوران کچھ ہالی وڈ کی فلموں کی نمائش بھی جاری تھی، اس طرح صرف عید کا ہفتہ پاکستانی سینیما کے لیے 40 سے 45 کروڑ روپے کی آمدنی کا سبب بنا۔
اب کرونا کی عالمی وبا میں سینیما بند ہیں ایسے میں اس صنعت سے وابستہ ہزاروں افراد بھی بے روزگار ہیں۔
منیب اختر کراچی کے ایک شاپنگ مال میں قائم سینیما میں کام کرتے تھے۔ وہ گذشتہ اگست سے بےروزگار ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مارچ 2020 میں سینیما بند ہوئے تو عیدالاضحیٰ تک تو ان کی ملازمت رہی اور تنخواہ بھی ملی مگر پھر مالکان نے معذرت کر لی اور کہا گیا کہ جب سینیما کھلیں گے تو واپس بلائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ 250 بےروزگار ہوئے تھے، کیونکہ ان کے پاس موٹرسائیکل تھی اس لیے وہ ایپ ٹیکسی سروس کے لیے کام کررہے ہیں جس میں بمشکل 15 ہزار روپے بن پاتے ہیں اور کرونا کا ڈر الگ رہتا ہے۔
’سینیما مجھے 25 ہزار دیتا تھا اور کام بھی ائیرکنڈیشن ماحول میں ہوتا تھا، اب سارا دن دھوپ اور دھول میں پھرتا ہوں اور پیسے بھی کم ملتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ گذشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں محدود تعداد میں سینیما کو کھولنے کی اجازت ملی تھی، تاہم اکثریت مالکان نے سینیما بند رکھنے کو ہی ترجیح دی کیونکہ چلانے کے لیے فلمیں ہی نہیں تھیں اور 50 فیصد افراد کی شرط کے ساتھ سینیما چلانا گھاٹے کا سودا تھا۔
موجودہ صورتِ حال کی سنگینی کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ سینیما کے مالک ندیم مانڈوی والا نے بتایا کہ شاپنگ مالز میں قائم بیشتر سینیماز نے ایک سال سے شاپنگ مال کو کرایہ نہیں دیا ہے اور ہر گزرتا مہینہ قرض کے بوجھ میں اضافہ کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کاروبار ہی بند ہو تو کوئی اخراجات کہاں سے ادا کرے گا۔
ان کے مطابق: ’کچھ شاپنگ مالز نے تو سینیما والوں سے کہہ دیا ہے کہ آپ چاہیں تو خالی کردیں تاکہ یہ جگہ کسی اور کام میں استعمال ہوسکے، اور اگر ایسا ہوا تو یہ فلمی صنعت کےلیے شدید صدمے کا باعث ہوگا کیونکہ پہلے ہی سکرینز بہت کم ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 70 سے 80 فیصد سینیما کا عملہ بےروزگار ہوچکا ہے، صرف انتہائی ضروری عملے کو اب تک رکھا ہوا ہے لیکن ان میں سے بھی بیشتر کو کہہ دیا ہے کہ ہم آپ کو اُس وقت تنخواہ دیں گے جب سینیما کھلیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ حکومت سے رابطے تو ہوئے ہیں اور حکومت اس معاملے میں دلچسپی بھی لے رہی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ متعلقہ وزارت یعنی وزارتِ اطلاعات میں جب سے یہ حکومت آئی ہے چار وزیر تبدیل ہوچکے ہیں جس سے ہمارا کام بار بار متاثر ہوا ہے۔
ندیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ سابق وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے انڈپینڈنٹ اردو ہی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مارچ 2021 تک فلم پالیسی کا اعلان ہوجائے گا مگر آج تک ایسا نہیں ہوا۔
اس بارے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ فلم پلیسی کا ابھی تک صرف ابتدائی خاکہ ہی تیار ہوا ہے اور آئندہ چند ماہ میں اس کی منظوری کا کوئی امکان نہیں۔
ندیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ انہوں نے حکومت کو اپنی تجاویز بھیجی ہوئی ہیں، اس وقت حکومت کو بیل آؤٹ دینے کی ضرورت ہے۔
’لیکن فوری طور پر ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں فلم سازی میں اضافہ کیا جائے، کیونکہ جتنا نقصان سینیما والوں کو ڈسٹریبیوٹرز کو ہوچکا ہے، ایسے میں پروڈکشن بڑھ نہیں سکتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سینیما کا کاروبار پیشگی منصوبے کے تحت ہی چلتا ہے، کب کونسی فلم آرہی ہے، اب پاکستان میں بالی وڈ تو فروری 2019 سے بند ہے، پاکستانی فلمیں اتنی تھی ہی نہیں کہ سینیما چلالیتں، ہالی وڈ کی کچھ فلمیں بہت چلتی ہیں اور کچھ نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2019 میں پاکستانی سینیما کو بالی وڈ کی بندش سے بہت نقصان ہوا تھا، اس کا ازالہ 2020 میں کئی بڑی پاکستانی فلموں کے ذریعے ہونا تھا کہ کرونا نے سارا منصوبہ تہس نہس کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ میں ویکسین لگانے کا عمل بہت تیز ہےاور وہاں سینیما جون کے آخر یا جولائی کے شروع میں مکمل بحال ہوجائیں گے، اب ایسے میں اگر ہمارے سینیما بند ہوئے اور وہاں بڑی فلمیں لگنا شروع ہوگئیں تو یہ آخری امید بھی دم توڑ دے گی۔
ندیم مانڈوی والا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بالی وڈ کے بغیر پاکستانی سینیما بڑھ نہیں سکتا، لیکن کم از کم ہمیں اتنا ضرور کرنا چاہیے کہ جو سینیما بن چکے ہیں وہ پاکستانی فلموں اور ہالی وڈ کی مدد سے چلتے رہیں، بند نہ ہوں۔
’فلم تیار مگرسینیما بند‘
دوسری جانب فلمساز بھی اس صورتِ حال سے کم پریشان نہیں۔
پروڈیوسر شاذیہ وجاہت کی فلم ’پردے میں رہنے دو‘ ریلیز کے لیے تیار ہے اور سینیما کھلنے کا انتظار ہے، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وبا کی وجہ سے فلمسازوں کی پیسے پھنس چکے ہیں جس سے ان کا مالی نقصان بھی ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’خطرہ اس بات کا ہے اگر سینیما کھل بھی جائیں تو کیا فلمساز اپنی فلم سینیما میں لگانے کے لیے دے سکیں گے کیونکہ اگر ایک ہفتے بعد خداناخواستہ پھر کرونا کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور حکومت نے سینیما بند کردیے ت وپھر کیا ہوگا؟ یہ خطرہ کوئی فلمساز شاید اس وقت مول نہ لے اس لیے دوسرے پلیٹ فارمز کی جانب بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ رواں برس تو استحکام کا امکان نظر نہیں آرہا لیکن 2022 میں اس کا امکان۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی وبا کی صورت حال میں حکومت مدد بھی کرے تو کیا کرے کیونکہ اس وقت لوگوں کی صحت اور علاج پر توجہ کی ضرورت ہے لیکن جب سینیما کھلیں گے تب فلمسازوں اور سینیما مالکان کی مدد حکومت کو کرنی چاہیے۔