’ہمارے ہاں ماحول اچھا نہیں ہے۔ 12 یا 13 سالہ بچی، جو پڑھی لکھی بھی نہ ہو، وہ غلط کام کر لیتی ہے۔ مسلمان کے پیچھے خود اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوجاتی ہے۔ اس لیے میں نے اپنی دس سالہ بیٹی لالی کی منگنی کر دی ہے۔ ایک دو سال میں شادی بھی کر دوں گی تاکہ ہمارے اوپر سے یہ ذمہ داری اتر جائے۔ یہ سب میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ کل کو میری بیٹی کے ساتھ بھی ایسا کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔‘
یہ الفاظ صوبہ سندھ کے ضلع مٹیاری کی 28 سالہ سبھاگی بھیل کے ہیں جو حالیہ دنوں میں سندھ میں لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور شادی کے کچھ واقعات سے خوفزدہ نظر آئیں۔ ان ہی میں سے ایک واقعہ مارچ میں گھوٹکی کی رینا اور روینا کے اغوا اور پھر تبدیلی مذہب کا بھی تھا، جسے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں کافی جگہ ملی تھی۔
ان معاملات میں اکثر اقلیتوں کی جانب سے عدم تحفظ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں قانوناً شادی کی کم سے کم عمر 18 سال ہے۔ اس قانون کے آنے کے بعد کم عمری کی شادیوں کے رجحان میں اگرچہ کمی نظر آئی لیکن اس پر مکمل عمل درآمد نظر نہیں آتا۔
جہاں تک جبری تبدیلی مذہب کے قانون کی بات ہے تو اس حوالے سے بل 2016 میں سندھ اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ اسے منظور بھی کر لیا گیا لیکن کچھ مذہبی جماعتوں کے اعتراض کے بعد یہ کھٹائی میں پڑا ہے۔
سبھاگی بھیل نے بتایا: ’ہمارے گاؤں بھانوٹ میں پانچ سو سے زیادہ گھر ہیں۔ زیادہ تر افراد کا تعلق بھیل قبیلے سے ہے لیکن ساتھ ہی مسلم آبادی بھی ہے، لہذا ہماری سوچ ہوتی ہے کہ بچیوں کی چھوٹی عمر میں ہی بات طے کرکے جلد شادی کر دی جائے۔‘
انہوں نے کہا: ’میری بیٹی نے پانچویں جماعت تک پڑھا ہے۔ میں نوکری کرتی ہوں اور وہ میرے پیچھے گھر سنبھالتی ہے۔ آگے اس لیے نہیں پڑھ سکی کیونکہ علاقے میں سیکنڈری اسکول نہیں اور پڑھنے کے لیے ہالہ میں اسے بھیجوں گی نہیں۔ میری دو بیٹیاں اور بھی ہیں، وہ اسکول میں پڑھ رہی ہیں۔‘
18 سال سے کم عمر میں شادی کے قانون کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’ہاں مجھے معلوم ہے کہ قانون چھوٹی عمر میں شادی کی اجازت نہیں دیتا لیکن جلد شادی کرنا ہمارا رواج ہے۔ ہم ادلے بدلے کے تحت شادی کرتے ہیں، جس کو ہم ’عوض‘ کہتے ہیں۔ لالی کی منگنی بھی میرے بیٹے کے سسرال میں ہی ہوئی ہے۔ عام رواج ہے کہ اگر میں نے کسی کی بیٹی لی ہے تو پہلے ہی طے کرلیں گے کہ میری بیٹی بھی ان کے گھر جائے گی۔ اکثر تو بیٹی کے پیدا ہونے سے پہلے ہی یہ بات طے کرلی جاتی ہے کہ اگر بیٹی ہوئی تو اس کی شادی کہاں ہوگی۔ ہمارے لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں۔‘
سبھاگی نے مزید بتایا: ’میری شادی بھی 12 سال کی عمر میں ہو گئی تھی کیونکہ میں اپنے بھائی کے ’عوض‘ تھی۔ میری بھابھی ہمارے گھر آگئی تھی لہذا مجھے بھی سسرال بھیج دیا گیا۔ اُس وقت میں آٹھویں جماعت میں پڑھ رہی تھی لیکن پھر اسکول چھوٹ گیا۔ 13 سال کی عمر میں میرا بیٹا مکیش میری گود میں تھا۔ اب میرے آٹھ بچے (پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں) ہیں۔‘
سبھاگی کا تعلق بھیل برادری کی ’کھتری‘ شاخ سے ہے۔ انہوں نے بتایا: ’ہم غریب لوگ ہیں۔ میرے شوہر اور دو بڑے بیٹے کھیتی باڑی کرتے۔ اگر کچھ ہو گیا تو ہم کوئی مقدمے بازی نہیں جھیل سکتے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہمیں مذہبی آزادی ہے۔ ہم بھی سکون سے رہتے ہیں اور لوگ بھی ہمیں تنگ نہیں کرتے لیکن جب اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو ہم کسی حد تک ڈر جاتے ہیں۔‘
سبھاگی نے کہا: ’مجھ سے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان ہو جاؤ۔ تم اتنی اچھی باتیں کرلیتی ہو، کلمہ پڑھ لو۔‘
لیکن میں ان سے کہتی ہوں: ’کلمہ تو مجھے آتا ہی ہے۔ کلمہ پڑھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دھرم ہی سب سے بڑی چیز ہے وہ ہم نہیں چھوڑیں گے۔‘