پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ سکیم میں تین مئی کو مائرہ ذوالفقار قتل ہوئیں جس کے بعد پولیس نے اس کیس کی تفتیش کا آغاز کیا۔
مائرہ کے دوستوں سے شک کی بنا پر تفتیش ہوئی تو ان کے قریبی دوست ظاہر جدون کو نامزد کیاگیا۔
اسلام آباد کے رہائشی ظاہر جدون نے گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے وکیل کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ سے 20 مئی کو عبوری ضمانت کی درخواست دی۔
عدالت نےانہیں شامل تفتیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے پولیس کو 27مئی تک ان کی گرفتاری نہ کرنے کا حکم دیا۔
عدالتی حکم پر ظاہر جدون دو دن پہلے ہفتے کے روز تھانہ سی آئی اے میں پیش ہوئے اور واپس چلے گئے۔
ظاہر جدون کے وکیل نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے انہیں پیشی کے بعد واپسی پر اسلام آباد سے اغوا کیا ہے اور قومی و عالمی میڈیا پر خبریں چلنے کے بعد اپنی نااہلی چھپانے کے لیے گرفتاری کی خبریں چلوا دی ہیں اور اب اقبال جرم کی افواہیں بھی چلوائی جا رہی ہیں۔
دوسری جانب پولیس افسران کی جانب سے اب تک کوئی تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا۔
ضمانت کے باوجودملزم کو گرفتار کیسے کیاجاسکتاہے؟
مائرہ ذوالفقار قتل کیس میں نامزد ملزم ظاہر جدون کے وکیل ذرک خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس نے عدالتی حکم پر شامل تفتیش ہونے والے بے گناہ ملزم کو گرفتار نہیں بلکہ اغوا کیا ہے۔ انہیں ہفتے کے روز اسلام آباد سے کزن سمیت اغوا کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیاہے۔‘
انہوں نے کہاکہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ نے 27مئی تک ذرک خان کی گرفتاری روکنے اور انہیں شامل تفتیش کرنے کا حکم دیا تھا جس پر وہ ہفتے کے روز شامل تفتیش ہوگئے اور پولیس کے سامنے خود کو پیش کردیا۔ اس کے باوجود جب وہ اسلام آباد واپس آئے تو انہیں یہاں سے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیاگیا اور خبریں چلوا دی گئیں۔ اب ان کے اقبال جرم کی خبر بھی چلوا دی گئی تاکہ ملکی و غیر ملکی میڈیا پر اس کیس کی کوریج کے دباؤ کو کم کیا جائے۔‘
ذرک خان نے کہا کہ ’ظاہر جدون کے بہن بھائی چھوٹے ہیں، اس گرفتاری سے ان کی والدہ پریشان ہیں اور سیکیورٹی ایشوز کے باعث ان کی بازیابی کے لیے حبس بے جا کی درخواست دائر نہیں کی جاسکی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مائرہ قتل کیس میں ظاہر جدون کو بلا وجہ ملزم بنایا گیا کیوں کہ ان کی مائرہ سے دوستی تھی، لاہور میں جس گھر میں وہ رہتی تھیں، وہ انہوں نے دیا، گاڑی اور خرچہ بھی ظاہر جدون دیتے تھے۔ جو شخص اپنی دوست کا اتنا خیال رکھتا ہو وہ اسے قتل کیوں کرے گا اور کوئی ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔ صرف دوستی کی بنیاد پر کسی کو قاتل کیسے قرار دیا جاسکتاہے؟‘
مائرہ ذوالفقار کی دوست سجل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ان کی مائرہ سے دوستی ضرور تھی لیکن ان کے قتل کی واردات سے متعلق انہیں کچھ علم نہیں۔ ان کے لیے بھی یہ ایسی ہی خبر تھی جیسی دوسروں کے لیے، ’دوستوں کا مائرہ کے ساتھ ویڈیوز میں ہونا معمول کی بات ہے۔‘
مائرہ کے والد محمد ذوالفقار نے میڈیا پر بیان دیے کہ ان کی بیٹی کے قاتلوں کا سراخ لگانے کے لیے پولیس روایتی سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ جلد از جلد ان کی بیٹی کے قاتلوں کو گرفتار کیاجائے۔
پولیس کیاکہتی ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے اس معاملہ کی تفتیش اور پیش رفت کے بارے میں متعلقہ پولیس افسران ایس پی سینٹرل انویسٹیگیشن ایجنسی (سی آئی اے) شعیب خرم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس کیس سے متعلق ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں اور نہ ہی وہ تفتیش سے متعلق کچھ بتانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ خفیہ معاملہ ہے جسے اوپن نہیں کیا جاسکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈی ایس پی سی آئی اے رانا زاہد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے جواب نہیں دیا۔
جب کہ ڈی ایس پی سی آئی اےحسنین حیدر نے ظاہر جدون کی گرفتاری یا اقبال جرم سے متعلق خبروں کی تردید کر دی اورکہا ’یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ملزم کو ضمانت کے باوجود گرفتار کیاجا سکے؟‘
ان سے پوچھا گیاکہ پھر ظاہر جدون کہاں ہے اور خبریں کیوں چل رہی ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ’ہم اس بارے میں کچھ نہیں بتا سکتے۔‘
واضع رہے کہ اس کیس سے متعلق خبریں چلیں تو آئی جی پنجاب نے دو دن پہلےاعلی سطحی اجلاس طلب کیا تھا اور پولیس افسران کو فوری طور پر اس کیس کو حل کر کے اصل ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔
لاہور کےکرائم رپورٹر نعمان شیخ سے پوچھا گیا کہ میڈیا پر پہلے ظاہر جدون کی گرفتاری اور اب اقبال جرم کی خبریں کس بنیاد پر چلائی جارہی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ’پولیس افسران نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ خبریں چلوا رہے ہیں، آن ریکارڈ تصدیق کوئی بھی افسر یا اہلکار کرنے پہ تیار نہیں، تاہم پولیس ذرائع کے مطابق ظاہر جدون کو گرفتار کر کے تفتیش کی جارہی ہے۔‘