پنجاب کے شہر بہاولپور میں گورنمنٹ صادق ایجرٹن (ایس ای) کالج کے ایک طالب علم خطیب حسین کی جانب سے ’مذہب مخالف سوچ‘ کا حامل قرار دے کر شعبہ انگریزی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر خالد حمید کو چھری کے وار کرکے قتل کیے جانے کے واقعے نے معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
پولیس تھانہ سول لائنز کے ایس ایچ او فرحان احمد کے مطابق ملزم کو آج عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے اسے 15 روزہ ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔
ملزم کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا جبکہ آلہ قتل پہلے ہی برآمد کرلیا گیا تھا۔
بی اے پارٹ ٹو کے طالب علم ملزم خطیب حسین نے پولیس کو دیے گئے بیان میں بتایا کہ اس نے کالج میں جمعرات (21 مارچ) کے روز رکھی گئی پارٹی میں ’لڑکیوں کی ممکنہ بے حیائی‘ کو روکنے کے لیے اپنے پروفیسر کو قتل کیا۔
ملزم نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) بہاولپور کو ایک درخواست بھی دی گئی تھی کہ اس پارٹی کو ’بے حیائی‘ قرار دے کر روکا جائے۔
بی ایس کے طالب علموں کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کے نام لکھی گئی یہ درخواست سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہی ہے، جس میں کالج میں جاری سالانہ فنکشن کی ریہرسل کو ’غیر اسلامی‘ اور ’یورپ کا کلچر‘ قرار دے کر رکوانے کی استدعا کی گئی ہے۔
ایس ایچ او فرحان احمد کے مطابق ملزم نے بیان دیا کہ ’پروفیسر صاحب مذہبی منافرت پھیلاتے تھے اور تقریبات کے ذریعے بھی اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کی جارہی تھی۔‘
ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ ملزم نے یہ بیان بھی دیا کہ اسے اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں بلکہ اس نے جو کیا وہ مسلمان ہونے کے ناطے اس کا فرض تھا۔
مقتول پروفیسر خالد حمید کے بھائی راشد حمید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کے بڑے بھائی تین حج کرچکے تھے، بدھ کے روز حسب معمول صبح کی نماز ادا کی اور ناشتہ کے بعد تیار ہوکر کالج چلے گئے۔ وہ ایک خوش مزاج اور انتہائی شریف انسان تھے اور ایس ای کالج کے شعبہ انگریزی کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ وقت پر کالج جاتے تھے۔‘
راشد حمید نے بتایا کہ ’پروفیسر صاحب نے گھر میں ایسا کوئی ذکر نہیں کیا کہ ان کو جان کا خطرہ ہے یا کالج میں طلبہ کی جانب سے ان کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ مقتول کی تدفین کر دی گئی، جس میں شہریوں، طلبہ اور اساتذہ کی بہت بڑی تعداد شریک ہوئی۔ مرحوم کے سوگواروں میں ایک بیٹا، دو بیٹیاں اور ایک بیوہ شامل ہے۔
تنازع کیا تھا؟
ایس ای کالج کے پروفیسر عاصم ثقلین درانی نے نمائندہ انڈپینڈنٹ نیوز کو بتایا کہ ’ایونٹ کمیٹی کے سربراہ پروفیسر خالد حمید کی سربراہی میں منگل کے روز ہونے والے اجلاس میں فیصلہ ہوچکا تھا کہ پارٹی پر تنازع کھڑا ہونے کے باعث اسے منسوخ کر دیا گیا ہے، اس لیے یہ قتل مذہبی انتہاپسندی نہیں لگتا بلکہ قاتل مذہبی جذبات کے تحت قتل کرنے کا بیان اپنے آپ کو بچانے کے لیے دے رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’خطیب حسین انتہائی سنجیدہ طالب علم ہے، اسے کبھی ہنستے مسکراتے نہیں دیکھا گیا، حتیٰ کہ وہ سوشل میڈیا پر ناپسندیدہ پیغام بھیجنے والوں سے بھی لڑ پڑتا ہے۔‘
ثقلین درانی کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں بلکہ کئی روز سے خطیب حسین اور اس کے دوست کالج میں تقریب کے انعقاد پر ایک مخالف مہم چلا رہے تھے، اس حوالے سے پمفلٹس بھی دیکھنے میں آئے اور ان کی جانب سے ڈی سی او بہاولپور کو تقریب منسوخ کرانے کی درخواست بھی دی گئی تھی، یہ لاوا کئی روز تک پکتا رہا اور بدھ کی صبح پروفیسر خالد حمید کے دفتر میں قاتلانہ حملہ کی صورت میں پھٹ پڑا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’واقعے کے وقت وہ اپنے دفتر میں اکیلے تھے، ان کی چیخ وپکار سے دفتر کے باہر موجود طالبات نے شورمچایا تو چند طلبہ نے وہاں پہنچ کر خطیب حسین کو پکڑا۔ پروفیسر خالد حمید چھریوں کے وارسے نڈھال تھے جبکہ خطیب حسین کے ہاتھ بھی چھری سے زخمی ہوئے، جس سے اس کے کپڑے بھی خون آلود ہوگئے۔ وہاں موجود طلبہ نے اسے پکڑ کے پولیس کے حوالے کر دیا۔‘
ایس ای کالج کے شعبہ انگریزی کے طالب علم وجیہہالحسن نے بتایا کہ خطیب حسین پانچویں سمسٹرمیں تھا اور ان کا جونئیر تھا۔ یزمان کا رہائشی خطیب حسین مولانا خادم حسین کا پیروکار ہے اور پچھلے چھ مہینوں سے اس کا انداز تھوڑا مختلف ہو گیا تھا۔ وہ مذہبی انتہاپسندی پر مبنی باتیں کرتا، واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کی ہنسی مذاق اور گپ شپ کو بھی حرام قرار دیتا تھا ۔ ایک بار تو مولانا خادم کا فتویٰ پیش کیا کہ ہنسنا بھی حرام ہے۔ وہ پڑھنے میں بہتر تھا اور کلاس میں خاموش رہتاتھا۔ مقتول پروفیسر سے پڑھتے ہوئے ابھی اسے دو ماه ہی ہوئے تھے۔
پہلا واقعہ؟
جنوبی پنجاب کے معروف کالم نگار شاکر حسین شاکر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔‘
شاکر حسین شاکر کے مطابق ’جرم کے بعد مذہب کی آڑ لینے کی یہ پہلی کوشش نہیں بلکہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بھی ایک پروفیسر مذہبی منافرت پھیلانے کے جرم میں طلبہ کے ہاتھوں نہ صرف ذلیل ہوئے بلکہ پولیس کو انہیں حراست میں لینا پڑا۔‘
اس حوالے سے ماہر قانون اور سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل مرزا عزیز اکبر بیگ نے کہا کہ ’ایک جانب حکومت کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کر رہی ہے، مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے سکیورٹی ادارے انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیاں بھی کر رہے ہیں، وہیں دوسری جانب تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے شدت پسندی کے رجحانات کے باعث روشن خیالات کے حامل اساتذہ، طلبہ اور شہریوں کا من پسند تقریبات منعقد کرانا بھی دشوار ہوتا جارہا ہے، اس معاملے پر انتظامیہ اور حکومت بھی خاموشی اختیار کرنے پر مجبور دکھائی دیتی ہے۔‘
دوسری جانب پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر سے جاری ایک ہینڈ آؤٹ میں کہا گیا کہ پروفیسر خالد حمید کے قتل پر ریجنل پولیس افسر (آر پی او) بہاولپور سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ملزم کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کر دی گئی ہے۔