اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی عہدے سے ہٹائے جانے کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جوڈیشل کونسل کے مطابق شوکت صدیقی نے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نمبر تین میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے پیر کو جسٹس شوکت صدیقی کی اپیل کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل کا یہ ماننا ہے کہ معاملہ یہ نہیں کہ لگائے گئے الزامات کی نوعیت کیا ہے بلکہ جج کا یہ کنڈکٹ نہیں کہ وہ ایسے عوامی مقام پر تقریر کرے۔‘
حامد خان نے جواب دیا کہ الزامات چاہے غلط ثابت ہوتے لیکن انکوائری ضروری تھی۔ ’بار سے ججز کا خطاب کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی بار سے خطاب کرتے رہے ہیں۔‘
اس حوالے پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’افتخار چوہدری بار سے ہمیشہ لکھی ہوئی تقریر کرتے تھے اور انہوں نے کبھی تقریر میں کسی پر الزام نہیں لگایا تھا لیکن یہاں شوکت عزیز صدیقی نے جو طریقہ اپنایا وہ دیکھیں۔‘
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی کو اکتوبر 2018 میں حساس اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
شوکت صدیقی خود آج کی سماعت کے دوران عدالت میں موجود نہیں تھے۔ سماعت کے آغاز میں شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے عدالت سے کہا کہ جنوری کے بعد اس مقدمے کی اب سماعت ہو رہی ہے جبکہ بارہا درخواستیں بھی دائر کی ہیں۔
اس کیس کی آخری سماعت رواں سال 28 جنوری کو ہوئی تھی جس کے بعد عدالت جلد سماعت کی چار درخواستوں کے باوجود کیس مقرر نہ کر سکی اور دو بار مقرر کر کے ڈی لسٹ کر دیا گیا۔
اس کے بعد سابق جج شوکت صدیقی نے ایک اور درخواست دائر کی کہ 30 جون کو وہ عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے اور 14 جون سے عدالت میں گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو جائیں گی لہذا عدالت تین سال سے زیر التوا کیس کا فیصلہ کرے۔
بینچ کے سربراہ عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ ’ہم اسی طرح کے ایک اور مقدمے میں مصروف تھے جس کی روزانہ کی بنیاد پر لارجر بینچ میں سماعت ہوتی تھی اور اب ہم اس کیس کا تفصیلی فیصلہ لکھنے میں مصروف ہیں۔ اب آپ اس بات کو چھوڑیں اور دلائل کا آغاذ کریں۔‘
وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے نوٹس کے باوجود جواب جمع نہیں کرایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ اس کیس میں پہلا مرحلہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا ہے۔ درخواست قابل سماعت ہونے کی رکاوٹ عبور ہونے پر جواب جمع کرائیں گے۔
حامد خان نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے کھلی عدالت میں انکوائری نہ کرنے کا جوڈیشل کونسل کا فیصلہ چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے درخواست قابل سماعت ہونے پر ہی ریلیف دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست قابل سماعت سمجھنے اور قرار دینے میں فرق ہے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جس بنیاد پر درخواست قابل سماعت سمجھی گئی وہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔
حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 209 کے تحت میرے موکل کو بنیادی حقوق ملنے چاہیں۔ ’مفروضوں کی بنیاد پر شوکت عزیز صدیقی کو برطرف کیا گیا، مفروضات پر انکوائری ہونی چاہیے تھی جو کسی نے نہیں کی۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’یہاں شوکت عزیز صدیقی ملزم ہیں۔ پیڈا ایکٹ میں بھی کچھ قانون ہیں۔‘
’ثبوت تو وہ ہوتا جو ثابت کرنے ہوں، یہاں تو ریکارڈ موجود ہے۔ شوکت عزیز صدیقی ذہین اور قابل شخص ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ تقریر اور اس کے نقاط سے انکار نہیں کیا گیا۔ جوڈیشل کونسل نے سمجھا مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا جج کو اس انداز میں گفتگو کرنی چاہیے؟
حامد خان نے کہا کہ انکوائری نہ کرنے کی وجوہات برقرار نہیں رکھی جا سکتیں۔ وجہ کچھ بھی ہو انکوائری کے بغیر کسی کو نکالا نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ یہ شوکت عزیز صدیقی کے خلاف چوتھا ریفرنس تھا جس میں برطرف ہوئے۔
ان دلائل پر جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ جس ریفرنس میں برطرفی ہوئی اس میں حقائق تسلیم شدہ ہیں۔ حقائق تسلیم شدہ ہوں تو انکوائری کمیٹی کیا کرے؟
ایک گھنٹہ سماعت جاری رہنے کے بعد عدالت نے سماعت دو جون بدھ تک ملتوی کر دی۔