صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں مختلف یونیورسٹیز کے ملازمین کی جانب سے ایک ہفتہ قبل پشاور کیمپس میں جس خاموش احتجاج کا آغاز ہوا تھا وہ پچھلے چار دن سے سڑکوں پر نعروں کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا دینے والے صوبہ بھر کے 31 سرکاری جامعات کے ملازمین و اساتذہ پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں کئی مظاہرین کی حالت غیر ہو گئی جبکہ کئی اعلیٰ عہدیداران و ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
احتجاج میں صوبہ بھر سے فیڈریشن آف آل یونیورسٹیز اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) کے ساتھ منسلک جامعات کے سینکڑوں ملازمین و اساتذہ نے شرکت کی اور اسی ضمن میں 31 مئی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان بھی کیا گیا۔
فپواسا خیبر پختونخوا چیپٹر کے ایگزیکیٹیو ممبر محمد طفیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے ساتھیوں کی ’گرفتاری‘ اور ان پر ’لاٹھی چارج‘ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’آج ہماری تقریباً 90 فیصد لیڈرشپ گرفتار ہوچکی ہے، ہمارے پرامن مظاہرین پر لاٹھیاں برسائی گئیں، انہیں زخمی کیا گیا۔‘
’اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے آج فپواسا کی صوبائی کابینہ کی ایگزیکیٹیو باڈی کا ایک نامعلوم مقام پر اہم اجلاس ہے۔‘
آل یونیورسٹیز ایمپلائیز فیڈریشن کے صوبائی صدر صلاح الدین نے گرفتاری سے کچھ لمحے قبل انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پورے پاکستان میں ہر طبقہ تنخواہوں میں اضافے کے لیے سراپا احتجاج ہے۔ ’جب کہ ہمارا مطالبہ اضافے کا نہیں بلکہ تنخواہوں میں الاؤنسز کی مجوزہ کٹوتی کے فیصلے کو واپس لینے کا ہے۔‘
Strongly condemn the manhandling of FPUASA Protesters n front of the Pakhtunkhwa Assembly. The arrested people must b released immediately. They were protesting for their rights. Tabdeeli Sarkaar has forgotten the 126 days long sit-in. Govt's work is to negotiate not to brutalize pic.twitter.com/2q5Z4VIEnC
— Samar Haroon Bilour (@SamarHBilour) May 31, 2021
گذشتہ روز فپواسا خیبر پختونخوا نے وزیر اعلیٰ محمود خان کے مشیر کامران بنگش سے متعلق میڈیا میں چھپنے والے اس بیان کی بھی سخت مذمت کی جس میں تعلیمی اداروں کے مالی بحران کے موضوع پر انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر کوئی ادارہ خسارے میں جاتا ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور اخراجات بڑھ جاتے ہیں تو وہاں تنخواہیں اور ملازمین کی تعداد کم کرنی پڑتی ہے۔‘
اس بیان پر اساتذہ کی تنظیموں نے صوبائی مشیر پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ ادارے درسگاہیں ہیں ناں کہ کوئی پیداواری ادارہ۔ ان درسگاہوں کی پیداوار طالب علم ہوتے ہیں جو انمول ہوتے ہیں۔‘
اساتذہ کی ان تنظیموں نے کامران بنگش کو اپنے اس بیان پر مستعفی ہونے کا بھی مشورہ دیا تھا اور صوبے کے گورنر و وزیر اعلیٰ سے مشیر اطلاعات کو اپنے عہدے سے ہٹانے کی درخواست بھی کی۔
2-
— Kamran Bangash(@kamrankbangash) May 31, 2021
KPgovt,despite meagre resources,has come to the rescue of Universities in the past,is doing,& will continue in the future but Universities r required to put thr house in order.If reforms aimed at financial discipline aren’t implemented,the situation will be hard to sustained
دوسری جانب سوشل میڈیا پر موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی کامران بنگش نے لکھا کہ کچھ عناصر جامعات میں موجودہ بحران کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد کرنا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بحران خود جامعات کے انتظامیہ کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے اپنے کم وسائل میں اس سے پہلے بھی سرکاری یونیورسٹیوں کی مدد کی ہے اور آئندہ بھی ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ان جامعات کو اپنے انتظامی امور کو خود ترتیب دینا ہوگا۔
One of the teachers of Peshawar university who was there in the protest. Hear her out. Shame on this tyrannical and fascist govt. pic.twitter.com/ioQgfqgpNA
— Mona (@mo2005) May 31, 2021
سوشل میڈیا پر پیر کو پشاور میں مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے واقعے پر صارفین کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔
خود کو پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن(پیوٹا) کی ایگزیکیٹیو ممبر ظاہر کرنے والی ایک خاتون نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ بھی مظاہرین کے ساتھ احتجاج میں شامل تھیں۔ ’اساتذہ کے ساتھ پولیس کا یہ سلوک انتہائی غلط تھا کیونکہ وہ اس قوم کا عزت دار طبقہ ہے اور ان کا احتجاج صرف اپنے حقوق کی حصولی تک تھا۔‘
احتجاج کرنے والوں کےمطالبات کیا ہیں؟
فیڈریشن آف آل یونیورسٹییز اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) کے خیبر پختونخوا چیپٹر نے اپنے ایک حالیہ اجلاس میں دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے چھ نکاتی مطالبات کی حتمی اور غیر مشروط منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
ایسوسی ایشن نے یہ دھمکی تھی کہ اگر ان کے مطالبات نہیں مانے گئے تو وہ اپنے احنتجاج کا دائرہ کار پورے پاکستان تک بڑھا دیں گے۔
فپواسا کے خیبر پختونخوا چیپٹر کے صدر ڈاکٹر شاہ عالم کی سربراہی میں پشاور سنڈیکیٹ اجلاس کے دوران چھ مطالبات منظوری کے لیے رکھے گئے تھے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
- صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔
- طلبہ وطالبات کے فیسوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لے لیا جائے۔
- تنخواہوں میں الاونسز کی مجوزہ کٹوتی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔
- یونیورسٹی سٹاف کو تنخواہ میں پچیس فیصد ڈسپیریٹی الاؤنس کا اجرا کیا جائے۔
- فپواسا کے مطابق، موجودہ جامعات بحران کی وجہ بننے والے ڈاکٹر عطاالرحمن کو وائس چانسلر سرچ کمیٹی سے بے دخل کیا جائے۔
- جب تک یہ مطالبات منظور نہ ہوں، احتجاج کا دائرہ وسیع تر کیا جائے گا۔
فپواسا خیبر پختونخوا چیپٹر کے اعلان کے بعد پاکستان کے دوسرے صوبوں کے چیپٹرز نے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ اور ان کے ساتھ مطالبات کے تسلیم ہونے تک ان کے ساتھ غیر مشروط تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی گئ۔