آج کے دور میں شہروں کے علاوہ دیہات میں بھی طرز زندگی ماضی قریب کے مقابلے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے، تاہم کچھ چیزیں ایسی ہیں جو سرائیکی وسیب کی آج بھی پہچان اور شناخت ہیں، ان میں ایک ’گوپا‘ بھی ہے۔
دیہی علاقوں میں جہاں ہم فطرت کے بے پایاں حسن سے آشنا ہوتے ہیں وہاں عہد گم گشتہ کی چند متروک چیزوں کے ساتھ ساتھ دیہات کی سادہ طرز معاشرت سے بھی متعارف ہوتے ہیں، یہ سادہ طرز معاشرت رہن سہن سے لے کر گھروں اور مکانوں کے طرز تعمیر میں بھی خوبصورتی کے ساتھ آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے، گاؤں میں کھیتوں کے بیچوں بیچ گھاس پھونس سے بنی ایک خاص قسم کی جھونپڑی ایستادہ ہوتی ہے جسے سرائیکی وسیب کی زبان میں ’ساہل‘ یا ’گوپا‘ کہا جاتا ہے۔
دور سے دیکھنے پر یہ جھونپڑی شاد، آباد اور بارونق نظر آتی ہے، اس کے اردگرد بکریوں اور بھیڑوں کی شکل میں ’مال‘ اور اس مال کو چھیڑن والے چھیڑو اونگھ رہے ہوتے ہیں۔ ڈھلتی شام کی اداسی میں شور مچاتے پرندے جب کسی گوپے کا طواف کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اپنے ’سائیں‘ کی مونجھ میں یہ گوپے بوڑھے ہو کر ان پرندوں کی ’ہوک‘ کے ساتھ ’کوک‘ رہے ہوں۔
سرائیکی وسیب میں دیہات کے برعکس چولستان کا علاقہ گوپوں کی ثقافت کا اصل مسکن ہے، محققین کے مطابق گوپے بنانے کا یہ فن چولستانیوں کی بدولت ہی سرائیکی وسیب کے دیگر علاقوں تک پھیلا، صحرا میں اُگنے والی گھاس پھونس اور لکڑی سے بنائے جانے والے ان گوپوں کو اپنی نفاست، مضبوطی، کشادگی، سادگی اور خوبصورتی کی بنا پر سرائیکی وسیب اور چولستان کی ثقافتی و تہذیبی علامت قرار دیا جا سکتا ہے جس کی تعمیر اور بناوٹ میں نفرت نام کی کوئی چیز شامل نہیں ہوتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منہ اندھیرے چولستانی مرد ڈھورڈ نگر لے کر انہیں چرانے چلے جاتے ہیں تو سگھڑ خواتین ان گوپوں کی صفائی ستھرائی کے بعد سلائی، کڑھائی یا ’گندی‘ بنانے لگ جاتی ہیں جو کپڑے کے بہت سے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنائی جاتی ہے۔
پھر جب دھوپ کے سائے لمبے ہونے لگتے ہیں اور دوپہر کا زور ٹوٹ جاتا ہے تو سب عورتیں دو دو، تین تین گھڑے اٹھائے قطار در قطار اپنے گوپے سے ٹوبے کی طرف بڑھنے لگتی ہیں اور شام ہونے سے پہلے پہلے پانی بھر کر گوپے میں واپس آ جاتی ہیں اور کھانا پکانے میں لگ جاتی ہیں اور پھر جب مرد گھر لوٹ کر آتے ہیں تو حقہ گڑگڑانے کے ساتھ ساتھ گوپے کے باہر مچ پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔
چولستان میں اکثر گوپے کے اوپر مویشیوں کے لیے چھوٹی جھونپڑیاں بھی بنائی جاتی ہیں جن کو ’منھیاں‘ کہا جاتا ہے۔
چولستان سے تھر اور پھر راجستھان تک پھیلے اس عظیم صحرا میں گوپے کی عجب کتھا ہے کہ کہیں اس میں رودالیوں کے بین گونجتے ہیں تو کہیں اللہ جلائی بائی کی کوک اور نتھو لال کے نغارے کی دھک دھک، کہیں گلابو کے زور سے ناچنے پر ٹوٹے گھنگرو کی آواز ہے تو کہیں اپنے روح کے رانجھنڑ کے لیے سارا نگ نموذ ونجا کے بھگتی پڑھتی میراں بائی ہے اور کہیں مٹھڑے فریدن یار کی رات کو دلوں کا شکار اور دن میں مٹیاں ولوڑتی جٹیاں ہیں جن کی مونجھ گوپے کو انتظار، ملاپ اور محبت کا استعارہ بنا کر جھوک کو آباد اور وسیب زادوں کو شاد رکھتی ہے۔
پاکستان خوبصورت ثقافتوں اور اعلیٰ روایات و تہذیب کا ایسا گلدستہ ہے جس کے رنگ و بو سے ہم دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں، ثقافتی تہذیب انسان دوستی اور تخلیق کے ساتھ تعصب انگیز محبت کا دوسرا نام ہے، عدم برداشت اور انتہا پسندی کے اس پر آشوب دور میں انسان دوستی پر مبنی ثقافتی اقدار کو اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وگرنہ تخلیقی فکر، آرٹ سے محبت اور ترجیحات و منصوبہ سازی کے فقدان کے باعث کہیں ایسا نہ ہو کہ ’گوپے‘ جیسے سرائیکی وسیب کی یہ قدیم ثقافت صفحہ ہستی سے مٹ کر صرف تاریخ کی کتب میں ’زندہ‘ رہ جائے اور پھر شاید ہماری آئندہ نسلیں اسے کسی عجائب گھر میں دیکھنے پہ مجبور ہو جائیں۔