چینی لڑکوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادی اور اس کے بعد ہونے والی جعل سازیوں کا سکینڈل سامنے آنے کے بعد ایف آئی اے کا ملک بھر میں کریک ڈاون اور پکڑ دھکڑ جاری ہے۔
لیکن ایسے حالات میں لاہور کی رہائشی ایک لڑکی نے ایف آئی اے کی جانب سے ان کے چینی خاوند کا شناختی کارڈ روکنے پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے پسند سے شادی کی اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ خوش ہیں، وہ ان کے ساتھ اپنی مرضی سے چین جانا چاہتی ہیں لیکن ایف آئی اے حکام ان کی ازدواجی زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
انہوں نے استدعا کی کہ حکام کو ایسا کرنے سے روکا جائے جس پر عدالت میں موجود ہر ایک شخص تصویر کا دوسرا رخ دیکھ کرحیران ہو گیا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور کے بند روڑ کی رہائشی 36 سالہ آصفہ شہزادی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ ان کی شادی 29 سالہ چینی باشندے وانگ ہائی فنگ سے چھ اپریل کو پاکستان میں ہوئی۔
انہوں نے نکاح نامہ بھی پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آئی کی جانب سے پاکستانی لڑکیوں سے شادی کر کے انہیں چین سمگل کیے جانے کے سکینڈل کی آڑ میں ان کے خاوند کا شناختی کارڈ بھی روک دیا گیا ہے۔
انہوں نے شادی شدہ ہونے کا ریکارڈ درج کروانے کے لیے نادرا کو درخواست بھی دی لیکن نادرا حکام نے ایف آئی اے کے منع کرنے پر نیا شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کر دیا۔
آصفہ شہزادی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی دوستی اپنے چینی شوہر سے ایک سال پہلے فیس بک پر ہوئی تھی، دونوں کے درمیان انگریزی زبان میں تبادلۂ خیال ہوا اور ویڈیو کال پر بھی ایک دوسرے سے بات کرتے رہے۔
یہ دوستی محبت میں تبدیل ہوئی تو وانگ ہائی شادی کے لیے پاکستان آ گئے اور آصفہ کے والدین سے ملاقات کر کے شادی کی خواہش کی جس پر ان کے والدین نے اس رشتے پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔
وانگ ہائی نے یہاں آنے کے بعد اسلام بھی قبول کر لیا۔
ایک ماہ پہلے پاکستانی اور اسلامی قوانین کے مطابق ان کی شادی ہو گئی اور اب وہ اپنے خاوند کے ساتھ چین جانا چاہتی ہیں، کیوں کہ انہیں اپنے خاوند کی محبت پر پورا یقین ہے اور وہ بذریعہ فیس بک میسنجر اپنے چینی سسرال والوں سے بھی کئی بار بات کر چکی ہیں۔
لڑکی کے والد محمد لطیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ان کی بیٹی آصفہ شہزادی کی عمر 36 سال ہونے کے باوجود معقول رشتہ نہیں مل سکا۔ وہ کہتے ہیں: ’کئی لوگ رشتے کی غرض سے ان کی بیٹی کو دیکھنے آتے لیکن ان کے کم خوبصورت اور غریب ہونے کے باعث کوئی رشتہ طے نہ ہوا۔ ہر بندہ جہیز اور جائیداد کی تفصیل لیتا تھا، جب پتہ چلتا کہ وہ لوگ غریب ہیں تو کوئی شادی کی ہامی نہیں بھرتا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب آصفہ نے چینی لڑکے کا بتایا تو ہم نے ان کے بارے چھان بین کر کے شادی کر دی اب یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہیں۔
پاکستانی لڑکیوں چینیوں سے شادیاں کیوں کر رہی ہیں؟
چین کے شہر بیجنگ میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم ذیشان رفیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چینی حکومت نے 2013 تک فی جوڑا ایک بچے کی پابندی عائد کر رکھی تھی اس کے بعد دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی لیکن ایک بچہ پیدا کرنے کی پابندی کے باوجود چین کی کل آبادی ایک ارب 38 کروڑ سے زیادہ ہے مگر لڑکیوں کی تعداد مردوں کے مقابلہ میں تقریبا 14 فیصد کم ہے۔
چین میں روایتی طور پر لڑکیاں پڑھائی کے بعد نوکری کو ترجیح دیتی ہیں اور وہ مردوں سے اپنی جنسی ضروریات پوری کرنے کے بعد شادی میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ اگر کوئی شادی کرنا بھی چاہے تو اسے زیادہ تر بڑی عمر کی خاتون سے شادی کرنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی لڑکوں کو دوسرے ممالک کی لڑکیوں سے شادی کرنا پڑتی ہے جن میں سری لنکا، بھارت، پاکستان، افغانستان اور روس شامل ہیں جہاں چینی باآسانی شادی کر لیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا اس مجبوری کی آڑ میں کئی جرائم پیشہ افراد نے چین میں جسم فروشی کی غرض سے پاکستان سمیت مختلف ممالک میں شادیاں کر کے لڑکیوں کو چین سمگل کرنے کا دھندہ بھی شروع کر رکھا ہے لیکن بیشتر چینی ازدواجی زندگی کا ہمسفر چننے کے لیے بیرون ملک شادیاں کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جرائم پیشہ گروہ تو ہر ملک میں موجود ہوتے ہیں ایسے معاملات کو موثر قانون سازی سے نمٹا جا سکتا ہے۔
پاکستانی دلہنوں کوچین سمگل کرنے والوں کے خلاف ایکشن
ایف آئی اے نے مسیحی اور مسلمان غریب لڑکیوں سے شادی کر کے انہیں چین سمگل کرنے اور انہیں مبینہ طور پر جسم فروشی کے لیے استعمال کرنے کے الزام میں کارروائی کی۔
گذشتہ ہفتے شروع ہونے والے اس کریک ڈاؤن میں ایف آئی اے نے 67 چینی باشندوں سمیت ان کے سہولت کاروں اور میرج بیورو سے تعلق رکھنے والے کل 79 افراد کو حراست میں لیا جن میں سے چھ ابھی تک ایف آئی اے کی تحویل جبکہ باقی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیئے گئے ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے کارروائی کے دوران فیصل آباد سے 34، لاہور سے31، اور اسلام آباد سے 14 افراد کو گرفتارکیا گیا۔
ان میں ایک منظم گروہ کو بھی گرفتار کیا گیا جس کے خلاف لڑکیوں نے بھی بیان دیا جبکہ کئی لڑکیوں کو چین سے قانونی کارروائی کے ذریعے واپس بھی لایا گیا۔
اس سکینڈل کے میڈیا پر آنے کے بعد چینی سفارت خانے کی جانب سے تردید جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ نے تحقیقات کا عندیہ دیا ہے۔