کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں اتوار کی رات ایک پاکستانی نژاد خاندان پر حملے میں چار ہلاکتوں کے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ مسلمان ملکوں کو انتہا پسندی کا طعنہ دینے والوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔
منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستانی نژاد کینیڈین خاندان کو مذہبی منافرت کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ ’مسلم ملکوں کو لیکچر دینے والے اسلاموفوبیا پر قابو پائیں۔‘
اونٹاریو کے شہر لندن میں اتوار کی رات ایک 20 سالہ نوجوان نے پانچ افراد کو اپنے پک اپ ٹرک سے کچل دیا تھا، جس کے نتیجے میں چار افراد چل بسے جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق حکام نے اسی روز قریبی پارکنگ لاٹ سے واقعے میں ملوث نوجوان کو گرفتار کرلیا تھا، جس کا نام نیتھانیئل ویلٹ مین ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مذکورہ خاندان پر حملے کی وجہ ان کی مذہبی شناخت تھی۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں عالمی برادری سے اسلاموفوبیا کے خلاف کلی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’اونٹاریو کے علاقے لندن میں ایک پاکستانی نژاد مسلمان کینیڈین خاندان کے قتل پر بے حد افسردہ ہوں۔ دہشت گردی کا یہ قابل مذمت اقدام مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کی علامت ہے، جس کے (اسلاموفوبیا) تدارک کے لیے عالمی برادری کی جانب سے کلی طور پر اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔‘
اونٹاریو کے علاقے لنڈن میں ایک پاکستانی نژاد مسلمان کینیڈین خاندان کے قتل پر بے حد افسردہ ہوں۔ دہشت گردی کا یہ قابل مذمت اقدام مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کی علامت ہے جس کے (اسلاموفوبیا) تدارک کے لئے عالمی برادری کی جانب سے کلی طور پر اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) June 8, 2021
متاثرین کے رشہ داروں نے ہلاک شدگان کی شناخت 46 سالہ سلمان افضل، ان کی 44 سالہ اہلیہ مدیحہ، 14 سالہ بیٹی یمنیٰ اور 74 سالہ خاتون کے طور پر کی ہے جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ ہسپتال میں زیرعلاج بچے کا نام فائز بتایا گیا ہے۔
رشتہ داروں کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا: ’وہ سب لوگ جو سلمان اور ان کے خاندان کو جانتے تھے اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ وہ بطور مسلمان، کینیڈین اور پاکستانی، ایک مثالی خاندان تھا۔ وہ اپنے اپنے شعبوں میں بھرپور محنت کرتے تھے۔ ان کے بچے اپنی جماعت میں صف اول کے طلبہ تھے اور وہ اپنی روحانی شناخت سے جڑے ہوئے تھے۔‘
ایک فنڈ ریزنگ ویب سائٹ کے مطابق سلمان افضل فزیو تھراپسٹ تھے اور کرکٹ کا شوق رکھتے تھے جبکہ ان کی اہلیہ نے سول انجینئیرنگ میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔ ان کی بیٹی نویں جماعت میں تھی جبکہ بزرگ خاتون ان کے خاندان کا ’ستون‘ تھیں۔
اہل خانہ کے بیان میں کہا گیا کہ لوگوں کو اسلاموفوبیا کے خلاف کھڑا ہونا ہو گا۔
بیان کے مطابق: ’وہ نوجوان جس نے یہ دہشت گردی پر مبنی فعل سر انجام دیا ہے، ایک ایسے گروپ سے متاثر تھا جس سے وہ تعلق رکھتا تھا۔ تمام افراد کو اس کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہونا ہو گا بشمول ہمارے اعلیٰ حکام اور اس شہر کے ہر فرد کے۔‘
میں چیخوں کو بھلا نہیں پا رہی: عینی شاہد
حملے کی عینی شاہد ایک خاتون پیج مارٹن کا کہنا تھا کہ وہ مسلسل ان متاثرین کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ ان کے مطابق: ’میں بری طرح ہل چکی ہوں۔ مجھے لگا یہ ڈرائیور کی غلطی ہے۔ میں چیخوں کو بھلا نہیں پا رہی۔‘
متاثرہ خاندان کے ایک عزیز زاہد خان کا کہنا تھا: ’اس حملے میں مرنے والوں میں تین نسلیں شامل ہیں۔ ایک والد، ایک والدہ، ان کی بیٹی اور ایک دادی۔ یہ خاندان 14 سال پہلے پاکستان سے کینیڈا منتقل ہوا تھا۔‘
زاہد خان کے مطابق متاثرین اپنے معمول کے مطابق چہل قدمی کر رہے تھے۔
حملہ پوری منصوبہ بندی سے کیا گیا: پولیس
پولیس کے زیر حراست نیتھانیئل ویلٹ مین پر چار افراد کے فرسٹ ڈگری قتل کا الزام ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم کا تعلق لندن کے علاقے سے ہے اور وہ ان متاثرین کو نہیں جانتے تھے۔
ڈی ٹیکٹو سپرٹنڈنٹ پاؤل ویٹ کے مطابق پولیس ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں کر سکی کہ کیا ملزم کا تعلق کسی شدت پسند گروہ سے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لندن پولیس، وفاقی پولیس اور وکلا کے ساتھ ملزم کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت کارروائی کیے جانے پر غور کر رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ نفرت کی بنیاد پر کیا جانے والا حملہ تھا لیکن ان کے مطابق یہ حملہ پوری منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا۔
پولیس کے سربراہ سٹفین ولیمز کا کہنا تھا: ’ہمارا ماننا ہے کہ ان متاثرین کو نشانہ بنانے کی وجہ ان کا مسلمان ہونا تھا۔ ہمارے شہر میں نفرت اور تشدد سے دوسروں کو نشانہ بنانے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘
نیشنل کونسل آف کینیڈین مسلمز کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں مسلمانوں کے خلاف تشدد عام بات ہو چکی ہے۔ کونسل کے سربراہ مصطفیٰ فاروق کا کہنا تھا: ’یہ کینیڈا کی زمین پر ایک دہشت گرد حملہ ہے اور اس کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔‘
لندن شہر کے میئر ایڈ ہولڈر نے کہا: ’یہ مسلمانوں کے خلاف قتل عام کی ایک کارروائی تھی۔ اس کی بنیاد نا قابل بیان نفرت تھی۔‘
میئر کے مطابق لندن شہر میں تین دن کے لیے پرچم سرنگوں رکھے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر کی چار لاکھ آبادی میں سے 30 سے 40 ہزار افراد مسلمان ہیں۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’لندن اور ملک بھر میں موجود مسلمان برادری کے لیے میرا پیغام ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے ملک میں اسلاموفوبیا کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ نفرت قابل مذمت ہے اور اسے روکنا ہو گا۔‘
پاکستانی ہائی کمیشن کا سخت کارروائی کا مطالبہ
دوسری جانب کینیڈا میں پاکستانی ہائی کمیشن نے مسلمان خاندان کے چار افراد کی ہلاکت پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستانی ہائی کمیشن نے منگل کو جاری ہونے والے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں ’اونٹاریو میں پاکستانی نژاد کینیڈین خاندان کے چار افراد کی ہلاکت کی افسوس ناک خبر ملی ہے۔‘
بیان میں کہا گیا: ’ابتدائی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد اسلامو فوبیا سے جڑے دہشتگردانہ حملے کا نشانہ بنے ہیں۔‘
پاکستانی ہائی کمیشن نے معاملے کے حقائق جاننے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے درخواست کی ہے اور اس حملے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
بیان کے مطابق پاکستانی ہائی کمشنر کی ہدایت پر آج ٹورنٹو کے قونصلر جنرل اونٹاریو کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ حکومت پاکستان کی جانب سے لواحقین سے تعزیت اور ہر ممکن تعاون کی پیش کش کی جا سکے۔