ہوٹل کے بڑے سے ہال میں جہاں کچھ لوگ سٹیج پر بیٹھے تھے، ایک خاتون ڈائس پر کھڑی بات کر رہی تھیں اور نشستوں پر بیٹھے درجنوں افراد ان کی گفتگو سن رہے تھے۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ انہیں سننے والے کچھ ایسے گھروں سے بھی تعلق رکھتے ہیں جہاں دن میں کھانا مل جائے تو رات کے کھانے کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔
یہ پیپلز کمیشن فار مائنورٹی رائٹس کی جانب سے اقلیتوں کی جبری تبدیلیِ مذہب اور جبری شادیوں کے حوالے سے ایک سیمنار تھا، جس میں چونگی امرسدھو کے مزدور جاوید مسیح بھی اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھے تھے۔
جاوید کے مطابق ان کی تین بیٹیوں کو شیرا کوٹ کے رہائشی خالد شاہ نے مبینہ طور پر اغوا کرنے کے بعد زبردستی مذہب ترک کرا کر اپنے گھر میں رکھا۔
جاوید کا کہنا ہے کہ خالد شاہ نے سات سال قبل ان کی بڑی بیٹی کو اغوا کیا اور جبری اسلام قبول کرا کر شادی کی۔ اس شادی سے ان کے دو بچے بھی ہیں۔ دو مہینے پہلے خالد نے ان کی ایک 13 اور دوسری 15 سالہ بیٹی کو بھی اغوا کر کے جبری طور پر اسلام قبول کرا دیا۔
جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا جب ان کی پہلی بیٹی اغوا ہوئی تو انہوں نے خالد شاہ کی بہت منت سماجت کی مگر اس نے جان سے مار دینے کی دھمکی دی۔
انہوں نے بتایا کہ خالد نے ان کی پہلی بیٹی کو مجبور کرکے دوسری بیٹیوں کو اپنے گھر بلایا اور انہیں جبری کلمہ پڑھوا کر اپنے ہی گھر پر رکھ لیا۔
زاہد نذیر بھٹی پاکستان مائنورٹی یونٹی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے جاوید مسیح کی بیٹیوں کے اغوا کے حوالے سے بتایا: ’بچیاں جب اغوا ہوئیں تو ان کے والدین گھر پر نہیں تھے۔ یہ 15، 20 دن بچیوں کو ڈھونڈتے رہے اور متعلقہ تھانے بھی گئے جہاں ان کی کوئی شنوائی ہوئی اور نہ ہی گمشدگی کا پرچہ کاٹا گیا۔ جب معلوم ہوا کہ ان کی بچیاں خالد شاہ کے پاس ہیں تو ان کہ پہلی کوشش تھی کہ مصالحت سے مسئلہ حل ہوجائے لیکن جب بات نہ بنی تو انہوں نے ہائی کورٹ میں اپیل کر دی، مگرتب تک کافی وقت گزر چکا تھا اور خالد شاہ ان نابالغ بچیوں پر کافی دباؤ ڈال چکا تھا‘۔
زاہد نے بتایا کہ جاوید اور اس کی بیوی چاہتے ہیں کہ ہائی کورٹ بچیوں کو دارالامان بھیجنے کا فیصلہ کرے اور انہیں والدین سے ملنے کی اجازت کا حکم دے۔
زاہد نے بتایا کہ سالانہ جبری مذہب تبدیلی کے سینکڑوں کیس سامنے آتے ہیں جن میں سندھ سے ہندو لڑکیاں جبکہ ملک بھر کے دور دراز دیہاتوں اور خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے اقلیتی خاندانوں کی بچیاں شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’12 یا 15 برس کی بچی کو جبراً مذہب تبدیل کرا کر اس کے ہاتھ میں مولوی کا دستخط شدہ ایک سرٹیفکیٹ تھما دیا جاتا ہے اور اس سرٹیفکیٹ کو چیلنج کرنے کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ اس کو چیلنج کرنے کا مطلب ہمارے ہاں اپنی گردن کٹوانا ہے۔
’اس سلسلے میں سول سوسائٹی کو آواز اٹھانا ہوگی۔ دوسرا پولیس کو اس حوالے سے ایکشن لینا پڑے گا کہ اگر اقلیتی برادری کی کوئی بچی اغوا ہو تو فوری اس کا پرچہ کاٹیں۔ پرچہ بروقت نہ کاٹنے کی وجہ سے بچیوں کے ساتھ زیادتی بھی ہو جاتی ہے۔ بااثر افراد اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے پولیس کو بھی مٹھی میں کر لیتے ہیں اورغریب زیادتی کا شکار ہو جاتا ہے۔‘
پیپلز کمیشن فار مائنورٹی رائٹس کے چیئرپرسن پیٹر جیکب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جبری مذہب کی تبدیلی اور شادیوں کے حوالے سے بتایا: ’2010 سے 2012 تک 1733 کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 42 فیصد لڑکیاں ہندو، 35 فیصد مسیحی اور 22 فیصد احمدی تھیں جبکہ 2019 کے اوائل میں سندھ سے اب تک 20 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، مگر یہ تعداد تبدیل ہوتی رہتی ہے‘۔
پیٹر نے مزید بتایا کہ ’ایسے کیس عموما وہاں سے سامنے آتے ہیں جہاں کوئی مذہبی درگاہ یا مدرسہ بنا ہو۔ کچھ لوگ اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے ایسا کرتے ہیں اور کچھ مذہبی جنونیت میں ایسا قدم اٹھاتے ہیں ایک اور وجہ یہ ہے کہ اقلیتوں کے فیملی لاز بہت سخت ہیں اور وہ چاہے کنوارے اور بالغ بھی ہوں تب بھی انہیں مرضی سے شادی کرنے میں مشکل آتی ہے۔ اس وجہ سے بھی لوگ ان کا مذہب تبدیل کرا لیتے ہیں۔‘
اس حوالے سے تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا ہے: ’جب ہم نے معاشرے میں اس اصول کو تسلیم کرلیا کہ کچھ لوگ وہ عقیدہ نہیں رکھتے جو یہاں رہنے والے افراد کا ہے اور وہ برابر کے شہری نہیں ہیں اور پھر ریاست کی رٹ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو ظاہر ہے کمزور لوگ جرائم پیشہ افراد کا شکار ہوں گے‘۔
’ان میں ہندو، مسیحی یا دوسرے غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ میرے خیال میں یہ کوئی علیحدگی میں ہونے والا معاملہ نہیں، یہ معاشرے کی دیگر چیزوں سے جڑے ہوئے معاملات ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آگے چل کر یہ چیزیں اور زیادہ شدت اختیار کریں۔‘
دوسری جانب، انسانی حقوق کے کارکن آئی اے رحمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میرے خیال میں پاکستان میں عورت ہونا جرم ہے اور غیرمسلم عورت ہونا اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ مسلمان کرکے ثواب کمایا جارہا ہے مگر مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایک مسیحی عورت کو مسلمان کرنے کا کیا فائدہ کیونکہ اس سے تو اسلام میں کوئی بڑھاوا نہیں ملے گا‘۔
انسانی حقوق کی کارکن اور سینئیر ایڈووکیٹ حنا جیلانی کا کہنا ہے: ’مذہب کی جبری تبدیلی میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ایسے کیس اب سامنے آنے لگے ہیں۔ اس میں ایک پیٹرن نظر آرہا ہے جو یہ دکھاتا ہے کہ ایسا کرنے والے وسیع پیمانے پر اور منظم ہیں۔ اس میں شادی کے ساتھ تبدیلی مذہب ہو رہی ہے اورعموماً اس میں مظلوم نابالغ ہے اور اس کا تعلق اقلیت سے ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو غیرمسلم بچیوں کو مسلمان کرکے نیکی کما رہے ہیں، ان کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔ پیٹرن یہ بھی دکھاتا ہے کہ یہ لوگ منظم اور اپنا ہدف سیٹ کرتے ہیں۔‘
حنا مزید کہتی ہیں کہ ملک کے مختلف علاقوں سے اتنے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں کہ اب اس مسئلے کی جانب ریاست کی بے توجہی قابل قبول نہیں رہی۔