کراچی کے شہری ولی اللہ معروف بچھڑے خاندانوں کو ملانے کا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں بالی وڈ کی فلم کی مناسبت سے ’بجرنگی بھائی جان‘ کہا جاتا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے یہ کام 2018 میں شروع کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں: ’ہمارے پڑوس میں زاہدہ نانی رہتی تھیں جنہیں بنگلہ دیش سے اغوا کر کے پاکستان میں بیچا گیا تھا۔ والدہ نے کہا کہ اس کی تفصیلات لے کر فیس بک پر ڈالو۔ ہو سکتا ہے خاندان سے رابطہ ہو جائے۔ اور ایسا ہی ہوا، میں نے پوسٹ لگائی۔ اس پر لوگوں نے رابطے کیے اور پھر ان کا خاندان مل گیا۔ پھر ہم نے ان کو بنگلہ دیش بھیجا۔ دو سال لگے سفری کاغذات بنوانے میں۔
’میڈیا پر خبر چلنے کے بعد اب خود بنگلہ خواتین مجھ سے رابطے کرتی ہیں۔ اکثر انسانی سمگلنگ کے ذریعے پاکستان میں بیچی گئی تھیں۔ کچھ کی یہاں ہی شادی ہو گئی۔ بچے ہو گئے اور بچوں کے بھی بچے ہو گئے۔ اب تک ہم 155 بنگلہ خواتین کو ان کے خاندان سے ملوا چکے ہیں۔ جبکہ پانچ سے سات انڈین خواتین بھی برسوں بعد گھر والوں سے رابطے میں آئیں۔ ہمارا اب باقاعدہ ایک رابطہ گروپ بن چکا ہے۔ جس میں دونوں طرف سے لوگ شامل ہیں۔
’جب لوگ مجھ سے اپنے خاندان سے رابطے کے لیے معلومات دیتے ہیں تو ان کو میں اپنے بنگلہ دوستوں کو بھیجتا ہوں۔ پھر وہ اپنے اپنے ذرائع استعمال کر کے خاندانوں کو ملاتے ہیں۔ کبھی یہ بھی ہوا کہ کسی کیس میں کچھ ہفتے لگے اور کسی کیس میں مہینے لگ گئے۔ ہم دونوں طرف کی شناخت کو خود بھی دیکھتے ہیں۔ والدین کے نام، رشتے داروں اور بہن بھائیوں۔ گوگل میٹ کے ذریعہ ہم ایک ویڈیو کال کرتے ہیں، بچپن کی باتوں پوچھتے ہیں۔‘
بنگلہ دیشی نوجوان منظور احمد، ولی اللہ معروف کے ساتھ 2019 سے کام کر رہے ہیں۔ ان کے پلیٹ فارم سے اب تک 145 کیسز حل ہو چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سب سے پہلا کیس زاہدہ نانی کا تھا۔ ولی اللہ بھائی نے اردو میں پوسٹ ڈالی میں نے دیکھ کر شیئر کر دی۔ لیکن کئی دن بعد بھی معلوم نہیں ہوا، تو پھر میں نےاسے بنگلہ زبان میں ترجمہ کر کے پوسٹ کیا تو چار دن بعد ان کا خاندان مل گیا۔
’کچھ کیسز میں خاندان اتنا خوش ہوتا ہے کہ گلے لگا لیتے ہیں جبکہ کچھ بھائی وغیرہ منع کر دیتے ہیں کہ کہیں جائیداد نہ دینی پڑ جائے۔ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا کیا فائدہ ہے اس میں؟ ایک ایسا خاندان بھی ملا جس نے کہا کہ ہم نے اپنی بہن کی جائیداد الگ کر دی ہے کہ ہمیں یقین تھا کہ ہماری بہن ملے گی۔
’شروع میں ہم خود جاتے تھے لیکن اب سب موبائل ہےاور مقامی کونسلر اور پولیس کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کبھی 50 تو کبھی 100 تک کالیں آتی ہیں۔ صرف پاکستان کے ہی کیسز نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک سے لوگ ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔ جب ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ان کا رشتےدار زندہ ہے توان کی خوشی کے مارے آواز ہی نہیں نکلتی۔ ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے جو پتہ دیا، خاندان وہاں نا ملا۔ وہ کسی اور شہر اور گاوں میں منتقل ہوچکے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ خاندان مل گیا خاتون نے بنگلہ دیش جانے کی تگ و دو شروع کی، سب کام ہو گیا، فلائٹ پکڑ کر جب گھر پہنچیں تو والدہ کا ہی انتقال ہو گیا۔
موبائل، گوگل میپ ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اب رابطے پھر آسان ہیں۔ ہمارا دونوں طرف 15سے 20 لوگوں کا نیٹ ورک ہے۔ ہمارے چینل اور فیس بک جس کا نام ’دیش فرا‘ ہے وہاں پر لوگ ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔‘
کراچی میں موجود بنگالی خواتین
مچھر کالونی کی 25 سالہ خورشیدہ سے ہماری ملاقات ایک ہسپتال کی انتظار گاہ میں ہوئی۔ جہاں وہ اپنی پڑوسن کے کم سن بیٹے کا سی ٹی سکین کرانے آئی تھیں۔ خورشیدہ سے مرض اور مریض پر بات چیت ہونا شروع ہوئی۔ چہرے کے خدوخال اور لہجہ ان کا رشتہ بنگال سے جوڑتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کر ڈھاکہ سے کراچی پہنچیں۔
پاکستان انسانی سمگلنگ سے نمٹنے کے لیے کافی کام کر رہا ہے۔ کئی پاکستانی غیر قانونی طریقے اختیار کرتے ہوئے ایجنٹ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور گورکھ دھندے میں پھنس کر بے موت مار جاتے ہیں۔ اکثر مقامی ایجنٹ بین الاقوامی مافیا کے گروہوں کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔
سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ کےڈائریکٹر کوثر عباس کا کہنا ہے کہ یہاں سے صرف پاکستانی ہی نہیں جا رہے بلکہ ایشیا میں انسانی سمگلنگ کے راستے میں پاکستان ایک ٹرانزٹ روٹ یا پڑاؤ سمجھا جا رہا ہے۔ لوگ دیگر ممالک سے یہاں پہنچتے ہیں اور پھر آگے سفر کرتے ہوئے غیر قانونی ذرائع سے مشرق وسطی اور یورپ پہنچ بھی جائیں تو بھی ان کی زندگی اجیرن ہی رہتی ہے۔
یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہو رہی ہے۔ یہاں ہم انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والی چند بنگالی خواتین کی کہانی سنا رہے ہیں۔
کومیلا چاند پور کی فاطمہ انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کراچی کیسے پہنچیں
55 سالہ فاطمہ جب 10 سال کی تھیں تو اپنی سہیلی کے ساتھ پاکستان گھومنے اور شام تک واپس آنے کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر دلال کے ہتھے چڑھ گئیں تھیں۔ انہیں یاد ہے کہ دلال کا نام سلیم تھا اور دونوں سہلیاں خوشی خوشی ان کے ساتھ ہو لیں کہ گھومنے جا رہے ہیں،
دلال کی باتوں پر یقین تھا۔ ’ہمارا چھ بہن بھائیوں پر مشتمل پورا خاندان تھا، والد کا نام محمد یونس عبدالوہاب تھا۔ غربت تھی، لکڑی کا مکان تھا، سیلاب آتے تو گھر ڈوب جاتے لیکن اچھے دن تھے۔ سکول جاتی تھی اس ہی لیے آج بھی بنگلہ پڑھ لیتی ہوں۔‘
اپنے اس سفر کی یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’سب سے پہلا پڑاؤ کلکتہ تھا۔ کبھی پیدل اور کبھی گاڑی میں سفر کرتے۔ کم از کم 15 سے 20 لوگ تھے۔ جن میں سے پانچ سے چھ مرد اور باقی عورتیں تھیں۔ شہر بدلتے رہے کلکتہ سے دہلی اور پھر بہاولپور، میر پور خاص سے حیدرآباد لایا گیا اور یہاں مجھے2500 روپے میں بیچ دیا گیا۔
میری سہیلی کو بھی بیچ دیا۔ لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ جس شخص نے مجھے خریدا، اس نے شادی کی، گھر دیا عزت دی۔ میری ساس نے پانچ سال میری پرورش کی۔ میرے بھائی مجھے ڈھونڈتے پاکستان آ گئے۔ اللہ نے ملانا تھا اس لیے میں 20 سال بعد اپنے خاندان سے ملی۔ 30 سال سے کراچی میں ہوں۔ اب تقریباً روز ہی بات ہوتی ہے۔‘
گلشن دو نمبر ڈھاکہ کی جینا
گلشن 2 نمبر ڈھاکہ کی رہائشی جینا اپنے میاں کے ساتھ کراچی پہنچیں۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً 18 سال ہو گی۔ یہ اس زمانے کی بات تھی جب آٹا دو روپے کلو اور چاول ڈھائی روپے کلو تھا۔ پہلا بچہ حالات کی وجہ سے مر گیا۔ دلال نے ایک فرد کے 3000 روپے لیے باقی 1500 روپے کراچی پہنچ کر لیے۔ بھارتی سرحدی علاقے گنگا نگر سے بہاولپور پھر لاہور اور راولپنڈی میں دو ہفتے رہے۔
انہوں نے بتایا، ’ایجنٹ کہتا تھا کہ گندم اور چاول کی گاڑی میں ہمیں کراچی بھیج دے گا۔ کئی ہفتوں بعد ہم عائشہ منزل موسیٰ کالونی میں پہنچے۔‘
56 سالہ جینا نے سبزی کاٹتے ہوئے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ایجنٹ نے ایسے سبز باغ دکھائے کہ یہاں کھانے کو نہیں ہے وہاں ریل پیل ہے۔ زیادہ پیسہ کمانا۔ مرغی کھانے کے پیسے نہیں تھے اور پاکستان میں 50 روپے کلو مل رہی ہے۔ ماں باپ بھائی بہنیں سب وہیں رہ گئے۔
’یہاں آ کر میاں کا دل نہیں لگا وہ واپس چلے گئے اور وہیں بس گئے اور انہیں طلاق بھیج دی۔ دوسری شادی ہوئی بچے ہیں اب میاں کا بھی انتقال ہو چکا۔ میاں فشریز میں آٹھ گھنٹے کام کرتے تھے۔ تنخواہ 19500 تھی اور ٹائم ملا کر 22000 ہو جاتی۔ اب واپس کیسے جائیں کاغذات ہی نہیں۔
’آپ کو کتنے ہی بنگالی پنجاب میں ملیں گے جو دلال کے ہاتھوں بکے۔ ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہاں شادی کر کے لے کر آتے اور یہاں لا کر بیچ دیتے خود دلال نے اپنی بیوی کو بیچ دیا۔ خو د میرے سامنے دو لڑکیاں بکیں۔‘
بیوہ جینا نے مزید بتایا کہ ’میرا شناختی کارڈ بلاک کر دیا ہے۔ بچوں کو شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی نوکری نہیں ملتی۔‘
اب 56 سالہ جینا صبح 11 بجے مکران فیکٹری میں مچھلی پیک کرتی ہیں۔ وہاں تین شفٹوں میں لگ بھگ 100 خواتین کام کرتی ہیں۔ ان کا جانے کا ٹائم ہے لیکن چھٹی کا نہیں۔ ایک بالٹی جھینگے صاف کرنے کے 300 روپے ملتے ہیں۔ 33 سالہ بڑا بیٹا رکشہ چلتا ہے لیکن بنگالی پاڑے کے اندر اندر، باہر سڑک پر نہیں چلاتا کہ پکڑ لیا جائے گا۔ اس کے چار بچے ہیں جو سکول جا نہیں سکتے لہٰذا مدرسے ہی بھیجتے ہیں۔ بچوں کی پیدائش ہو یا بیماری ہسپتال میں بغیر شناختی کارڈ کے کیسے زندگی گزر سکتی ہے۔ یہ آپ خود سوچ سکتے ہیں۔
دونوں طرف کے صحافی کیا کہتے ہیں
ڈھاکہ میں ٹی آر ٹی ترکی کے نمائندے قمر الزماں نے ہمیں فون پر بتایا کہ ’بنگلہ دیش میں انسانی سمگلنگ کے المیے میں سب سے بڑا کردار وہاں کے معاش، سماج اور نفسیات کا ہے۔ خاص کر دیہاتوں میں سادہ مزاج لوگ دلال کے دکھائے سہانے خوابوں کی بھینٹ چڑ جاتے ہیں۔ غربت ہے مگر دیہات میں خواتین سفر نہیں کرتیں، ناکافی معلومات کی وجہ سے دلال ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ معاش اور بہتر مستقبل کے خواب خواتین کی ٹریفک ہونے کا بڑا سبب ہیں۔
’خود سوچیں بنگلہ دیش میں تیار شدہ کپڑوں کی صنعت سے 40 لاکھ سے زیادہ لوگ منسلک ہوئے ہیں۔ 90 فیصد خواتین ہیں جو دیہی علاقوں سے آ رہی ہیں۔ فیکٹریوں میں معاشی استحصال عام ہے کیونکہ انہیں دنیا کی سب سے کم تنخواہ مل رہی ہے، لہٰذا اکثر کچی آبادیوں میں مقیم خواتین کو نشانہ بناتے ہیں۔ ڈھاکہ کی کچی آبادیاں بھی ان کے نشانے پر ہوتی ہیں، جنہیں کہا جاتا ہے کہ یہاں کم پیسے ہیں، باہر جاؤ وہاں کئی گناہ زیادہ پیسے ملیں گے۔ خواتین ڈھاکہ اور دیگر شہری علاقوں سے انڈیا لے جا کر وہاں کے قحبہ خانوں میں پیچ دیا جاتا ہے اور مرد بھی معاشی استحکام حاصل نہیں کر پاتے۔
’اسی لیے امن اور معاشی استحکام ضروری ہے۔ حکومت کو ضرورت مند خواتین کے معاشی کی مشکلات دور کرنا چاہیے۔ غیر تعلیم یافتہ، بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین ان کا اصل ہدف ہوتی ہیں۔ محبت کی چکنی چپڑی باتوں میں پھنس گیا تو کسی ضرورت مند خاندان کو سبز باغ دکھا دیے۔‘
ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قمر کا کہنا تھا کہ ’بنگلہ دیش اور انڈیا کے سرحد پر واقع سندر بن کا دنیا کا سب سے بڑا مینگروو جنگل ہے۔ یہاں ہزاروں لوگ شہد جمع کرتے ہیں۔ یہاں خونخوار بنگال ٹائیگر بھی پائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی بنگال ٹائیگر کا شکار ہو جائے تو توہم پرستی اتنی ہے کہ سمجھا جاتا ہے اس آدمی کی بیوی خراب کردار کی ہے اور گھر والے اسے الگ کر دیتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے اور یہ خواتین بھی انسانی سمگلنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ خاص کر سندر بند کے جنوب مشرقی علاقوں میں یہ توہم پرستی عام ہے۔‘
پاکستانی صحافی بینا سرور نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’2000 میں وہ ایک صحافی کے ساتھ کراچی کے بنگالی پاڑے گئی تھیں۔ ہمیں بنگلہ خواتین کی خرید و فروخت پر ایک انویسٹی گیٹو سٹوری کرنا تھی۔ ہم نے کہانی گھڑی کہ میرے بھائی کو اولاد کی خاطر دوسری شادی کرنی ہے، لیکن دنیا کے سامنے وہ گھر یلو ملازمہ ہوں گی بچے کی والدہ نہیں۔ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہر عمر اور انداز کی خواتین ان کے سامنے لائی گئیں کہ کسی کو بھی منتخب کر لیں۔ چاہے 14 سال کی لڑکی ہو یا 40 سال کی خاتون۔ سب 30 ہزار میں بیچی جا رہی تھیں۔ نکاح خواں کی سہولت بھی مفت میں موجود تھی۔ اور یہ سب اللہ کے نام پر ان خواتین کی خیر خواہی میں کیا جا رہا تھا۔‘
حل کیا ہے ؟
امکان کی سربراہ اور وکیل طاہرہ حسین کہتی ہیں کہ ’انسانی سمگلنگ صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ اس کا شکار ہونے والے لوگ پہلے ہی پریشان کن حالات کا شکار ہوتے ہیں لیکن اچھے مستقبل کی خاطر موت کو دعوت دینے جیسے عمل سے بھی گزر جاتے ہیں۔ اگر زندہ بچ جائیں تو مزید غربت، پس ماندگی، تعلیم کی کمی، نقل مکانی، تشدد کے ساتھ ساتھ معاشی اور جسمانی استحصال کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔
’کراچی میں موجود بنگالی خواتین کا مسئلہ اس پر بھی بڑھ جاتا ہے کہ ان کی کوئی شناخت نہیں، کوئی ملک جیسے اپنا کہہ سکیں۔ وہ پہلے بھی محفوظ نہیں تھیں اور جس ملک میں وہ پہنچائی گئیں، جہاں اب ان کے بچے پیدا ہوئے لیکن وہ اس ملک میں ایک بے نام انسان کی حیثیت سے رہنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ تحفظ سے لے کر شناخت دینا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ جبکہ وہ عورت بچی سے نانی اور دادی کا سفر طے کر چکی ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب اپنی عمر کا لمبا عرصہ گزارنے کے باوجود پہلے وہ خود اور بعد میں ان کا خاندان غیر تعلیم یافتہ، بنیادی صحت سے نابلد اور معاشی استحصال کا شکار رہتے ہیں۔ غیر قانونی ہونے کے ٹیگ کے ساتھ جینا آسان نہیں۔ انصاف کا حصول دور کی بات، بروقت مدد بھی نہیں مل پاتی۔ بےزمین اور بے شناخت ہونے کا احساس ہمیشہ غیر یقینی اور مزید استحصال کی فضا پیدا کرتا ہے۔
’پاکستانی قانون، پاکستانی زمین پر پیدا ہونے والے ہر بچے کو پاکستانی شہری تسلیم کرتا ہے۔ ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی پاکستانی شہری سے شادی کے بعد بھی غیر ملکی کو پاکستانی شہریت دینے کا قانون موجود ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون پر عمل درآمد کیا جائے۔ جس سے بنگلہ خواتین اور ان کے خاندان کی معاشی، سماجی اور تعلیمی حیثیت میں نمایاں فرق آئے گا۔ ورنہ یہ ہر طرح کے استحصال کا شکار، مزید ابتری کا شکار رہیں گے۔‘
ڈھاکہ میں زیر تعلیم پاکستانی شہری محمد طاہر کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی معاشی حالت بہتر تھی لہذا یہاں لوگ آتے۔ پھر کام کا جھانسا دے کر خواتین کو یہاں لا کر بیچ دیا جاتا۔ رابطے نہیں رہے اور خط اور تصاویر نہ ہونے کی وجہ سے شناخت مشکل ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی آرگنائزیشن بن جائے یا بہتر حکمت عملی یہ رہے گی کہ حکومتی سطح پر رابطہ کاری کا ادارہ بنا دیا جائے۔ جو دونوں طرف کے خاندانوں کے رابطے بنائے۔ پھر انسانی سمگلنگ کے سلسلے کو بھی توڑنا ہو گا۔ کڑی سزا دی جائے۔ پھر جو خاندان مل جاتے ہیں اکثر کے پاس سفری اخراجات اٹھانے کے پیسے نہیں۔ حال ہی میں سرجانی ٹاؤن کی بیوہ صبیحہ خاتون کا خاندان سے رابطہ ممکن ہو گیا لیکن سفری اخراجات کون اٹھائے؟‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔