پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 24 نومبر کو اسلام آباد میں بظاہر ناکام احتجاج کے بعد سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بن رہی ہیں۔
بشریٰ بی بی پر تنقید ٹی وی چینلز پر پی ٹی آئی کے بعض مرکزی رہنماؤں نے کی جبکہ خیبر پختونخوا کے کچھ پارٹی رہنما بھی احتجاج کے دوران ان کے کردار کے حوالے سے اعتراضات اٹھا رہے ہیں۔
دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے مخالف سیاست دانوں نے اپنی توپوں کا رخ بشری بی بی کی جانب کیا ہوا ہے کہ جیسے ڈی چوک پر ناکام احتجاج اور عمران خان کی مشکلات کی وجہ وہی ہیں۔
سینٹیر فیصل واوڈا نے ایک چینل پر گفتگو میں اچانک بشری بی بی سے شادی سے قبل عمران خان کو اچھا سیاست دان ثابت کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیئے۔ ان کا یہاں تک کہنا تھا کہ ’عمران خان کی زندگی کے لیے بہت فکرمند ہوں۔ ان کی زندگی کو خطرہ ہے، اگر عمران خان کو بچانا ہے تو بشریٰ بی بی سے جان چھڑانی ہوگی۔‘
پی ٹی آئی کے احتجاج کے بعد سے سماجی رابطوں کے پلیٹ فامز پر بھی سب سے زیادہ تنقید بشریٰ بی بی پر ہی کی جا رہی ہے۔
یہ پہلی مرتبہ تھی کہ بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کے کسی احتجاج میں شریک ہوئیں، جب کہ احتجاجی قافلے کی قیادت خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی علی امین گنڈا پور کر رہے تھے۔
ڈی چوک میں پی ٹی آئی مظاہرین پر شیلنگ اور آپریشن شروع ہونے سے قبل ہی سابق خاتون اول اور خیبر پختونخوا کے چیف ایگزیکٹیو ڈی چوک چھوڑ کر مانسہرہ چلے گئے تھے، جس کی وجہ علی امین گنڈاپور نے ان کی گاڑی پر سیدھی فائرنگ اور انہیں قتل کرنے کی کوشش کو قرار دیا۔
بعض حلقے یہ تاثر بھی دے رہے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے وہاں سے نہیں گئیں بلکہ زبردستی ہٹایا گیا۔
سوال اٹھتا ہے کہ احتجاج کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد ہر جانب سے خصوصا پارٹی رہنماؤں کی جانب سے بشریٰ بی بی کو کیوں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ یہ سوال انڈپینڈنٹ اردو نے مبصرین اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے سامنے رکھا۔
سینیئر پی ٹی آئی رہنما اور سابق صوبائی وزیر شوکت علی یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اگر پارٹی قیادت بہتر حکمت عملی سے کام لیتی تو احتجاج اور بھی کامیاب ہو سکتا تھا۔‘
ان کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی کا احتجاج اب بھی کامیاب رہا، جس کا ثبوت لوگوں کی بڑی تعداد میں اس میں حصہ لینا ہے۔ ’حکومت نے گولیاں چلائیں اور کارکنوں کو مارا گیا جس کی وجہ سے احتجاج کرنے والے منتشر ہو گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب سیاسی کارکن اس (فائرنگ) کے لیے ٹرین تو نہیں ہوتے اور اسی وجہ سے وہ منتشر ہوئے لیکن احتجاج کی حکمت عملی بہتر بنائی جا سکتی تھی۔‘
شوکت یوسفزئی کے خیال میں ’اگر ہم دو تین دن مزید وہاں رکتے اور ڈی چوک نہ بھی جاتے تو وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکتا تھا۔‘
سابق صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ’مرکزی قیادت کے مطابق بشریٰ بی بی نے ان کی بات نہیں مانی اور سب کچھ اپنی مرضی سے کیا۔ لیکن میرا غصہ مرکزی قیادت پر ہے کیونکہ وہ غیر سیاسی خاتون ہیں اور ہمارے لیے قابل احترام بھی۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ ’کیونکہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے اس لیے فیصلوں کا اختیار مرکزی قیادت کے پاس ہونا چاہیے تھا اور یہی وجہ ہے کہ میں ان (مرکزی قیادت) پر تنقید کر رہا ہوں۔‘
پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایک رکن نے، جو 24 نومبر کے احتجاج میں اسلام آباد میں موجود تھے، نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’علی امین گنڈا پور کے احتجاجی منصوبے کے مطابق ہمیں ڈی چوک پہنچنے میں تقریباً 10 دن لگانا تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گنڈا پور پورے ملک کو جام کرنے کا سوچ رہے تھے تاکہ وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھ سکے۔ لیکن بشریٰ بی بی بضد تھیں کہ انہیں ہر صورت ڈی چوک پہنچنا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بشریٰ بی بی قافلے کے ساتھ سفر کے دوران کہتی رہیں کہ خان صاحب کا پیغام ہے کہ آج ڈی چوک پہنچنا ہے۔ ’وہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ جلدی کرو۔ 80 (کلو میٹر فی گھنٹہ) کی سپیڈ سے گاڑی بھگاؤ تاکہ ہم ڈی چوک پہنچیں۔‘
تاہم بشری بی بی کی بہن مریم ریاض وٹو نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں جعمرات کی رات گفتگو کے دوران اس تاثر کو علظ قرار دیا کہ عمران خان سنگجانی کے مقام پر دھرنے کے لیے آمادہ ہوگئے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ ’بیرسٹر سیف اور بیرسٹر گوہر کی بات پر عمران خان نے اتفاق نہیں کیا تھا۔‘
رکن صوبائی اسمبلی نے بتایا کہ ’اکثر اراکین اسمبلی کا بھی یہی خیال ہے کہ بشریٰ بی بی کی وجہ سے احتجاج ایسا نہیں ہو سکا جو کیا جانا چاہیے تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے خیبر پختونخوا سے بڑی تعداد میں کارکن نکالے تھے لیکن صوبے کی قیادت میں پنجاب کی قیادت کے خلاف بھی غم و غصہ پایا جاتا تھا۔‘
پی ٹی آئی ایم پی اے نے کہا کہ ’ہم عمران خان سے اس حوالے سے بات کریں گے کہ اگر پنجاب اور مرکزی قیادت غائب ہو تو خیبر پختونخوا کو صرف احتجاج کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔‘
بشری بی بی وجہ تقسیم؟
پشاور میں نجی ٹی وی چینل ’آج نیوز‘ کی بیورو چیف فرزانہ علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ بشریٰ بی بی کی وجہ سے پی ٹی آئی دو حصوں میں تقسیم ہوئی اور احتجاج کے بعد سے بشریٰ بی بی تنقید کی زد میں ہیں۔‘
فرزانہ کے مطابق: ’کئی پی ٹی آئی رہنماؤں نے مجھے بتایا کہ 26 نمبر چونگی پر پہنچ کر علی امین نے بشریٰ کو مزید آگے نہ جانے سے متعلق سمجھایا۔ لیکن وہ نہیں مان رہی تھیں اور بضد تھیں کہ عمران خان کا حکم پورا کیا جائے۔‘
سینیئر صحافی نے ایک رکن خیبر پختونخوا اسمبلی کے الفاظ دھراتے ہوئے کہا کہ ’بشریٰ بی بی نے ہمیں کہا کہ وہ تو جا رہی ہیں۔ آپ فیصلہ کریں کہ میرے ساتھ جانا ہے یا نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرزانہ علی کے خیال میں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کا بھی ارادہ اسلام آباد کے کسی قریبی علاقے میں دو تین دن دھرنا دینے کا تھا۔ ’لیکن بشریٰ بی بی ڈی چوک جانے پر بضد تھیں اور مرکزی قیادت کی بات نہیں مان رہی تھیں۔‘
پشاور کی سینیئر خاتون صحافی نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے کارکنوں کو تو ڈی چوک کا بتایا تھا لیکن حکومت سے کوئی درمیانی راستہ ملنے کی امید میں مذاکرات بھی ہو رہے تھے۔‘ ان کے خیال میں پی ٹی آئی قیادت کو یہ بخوبی اندازہ تھا کہ احتجاج سے عمران خان رہا نہیں ہو سکتے۔
’لیکن اس سے آگے ان کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ وفاقی حکومت دھرنے کے لیے کوئی جگہ دے بھی دیتی تو کوئی انتظامات نہیں تھے۔‘
پشاور میں نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے نمائندے رسول داوڑ نے، جو پی ٹی آئی کے قافلے کے ہمراہ اسلام آباد آئے تھے، بتایا کہ اسلام آباد ٹول پلازہ پہنچنے تک کارکنان کے ذہن میں ڈی چوک ہی جانا تھا۔
’صوبائی ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کا ایک بیان کارکنوں تک پہنچا کہ عمران خان نے سنگجانی میں دھرنے کی ہدایات دی ہیں۔ کئی پی ٹی آئی کارکن سنجگانی جانے پر راضی بھی تھے لیکن بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ ڈی چوک وہ جائیں گی اور اکیلی ہی جائیں گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب قافلہ اسلام آباد میں سینٹورس شاپنگ مال کے قریب رکا تو مرکزی کنٹینر علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کی گاڑیوں سے آگے تھا۔
رسول داوڑ نے مزید کہا کہ ’کلثوم ہسپتال کے قریب پہنچنے پر ایک رکن صوبائی اسمبلی نے مجھے بتایا کہ اب بشریٰ بی بی آگے جانے سے منع کر رہی ہیں۔ ’لیکن کچھ کارکن ڈی چوک داخل ہو چکے تھے اور مرکزی کنٹینر کے ڈرائیور کو بھی آگے جانے پر مجبور کر چکے تھے، جب کہ علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کی گاڑیاں کلثوم ہسپتال کے قریب رکی ہوئی تھیں۔‘