کراچی کے علاقے گلاستان جوہر کی رہائشی ڈاکٹر ثنا احسان پچھلے پانچ سالوں سے فارمیسی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
ان پانچ سالوں میں انہوں نے اپنی فیلڈ میں نوکری کے حوالےسے کافی مایوسی کا سامنا کیا۔ ان سب مسائل سے تھک ہار کر ثنا نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا خود کا کام شروع کریں گی۔ فارمیسی کھولنے کے کا سرمایہ ان کے پاس موجود نہیں تھا تو انہوں نے اپنے والد کی طرف سے دیے ہوئے کچھ پیسے اور اپنی تھوڑی جمع پونجھی سے گھر پر موجود بائیک چلانا سیکھی، ایک بورڈ پرنٹ کروایا اور نکل پڑیں کراچی کی سڑکوں پر اپنی چلتی پھرتی فارمیسی کے ساتھ۔۔
ثنا کو جہاں گاہکوں کی طرف سے ایک مثبت ردعمل ملا ہے وہیں دوسری جانب انہیں کراچی میں خاتون بائیکر ہونے کی وجہ سے کافی ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ثنا کے حوصلے اس کے باوجود بھی بلند ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ لوگوں کو میڈیکل آلات تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کریں اور ان کو استعمال کرنے کے صحیح طریقے سے آگاہ کریں۔
اس لیے جب بھی کوئی بورڈ سے پڑھ کر ان کے نمبر پر رابطہ کرتا ہے تو وہ نہ صرف ان کے لیے دوائیاں اور آلات خریدتی ہیں بلکہ اس کی مفت ڈلوری کرتی ہیں اور ساتھ میں مفت میڈیکل مشورہ بھی دیتی ہیں۔
ڈاکٹر ثنا کے مطابق ہمارے ملک میں مختلف فرمیسیز یا میڈیکل سٹورز پر ایسے افراد کام کرتے ہیں جن کے پاس نہ تو ڈگری ہوتی ہے نہ ہی ٹریننگ۔ ہسپتالوں کی فارمیسی میں بھی ایک ٹیکنیشن کو فارماسسٹ پر برتری دی جاتی ہے۔
اس کی وجہ سے عام عوام جب ہسپتالوں میں یا میڈیکل سٹورز پر مختلف دوائیاں یا آلات لینے جاتے ہیں تو کوئی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کرتا۔ یہ طریقہ تبدیل ہونا چاہیے اور ثنا نے اس کی طرف اپنا پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔