چپو سے چلتی، درمیانے سائز کی ڈولتی کشتی میں سوار ایک درجن کے قریب مردوں کے ساتھ بیٹھی دونوں خواتین نے دھوپ سے بچنے کے لیے چادر سے سر ڈھانپ رکھے ہیں۔
ہلکی داڑھی اور مہندی لگے بالوں پر سرخ رنگ کی سندھی ٹوپی پہنے، شلوار قمیض میں ملبوس نذیر احمد میرانی کشتی کے تختے پر پالتی مارے بیٹھے ہیں کہ اچانک کشتی پر سوار گروپ میں سے کوئی آواز لگاتا ہے 'ڈولفن'۔
نذیر احمد کی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے اور وہ دریائے سندھ کے مٹیالے پانی پر نظریں جما کر دوسری ڈولفنز کا انتظار کرتے ہیں اور جیسے ہی ڈولفنز نظر آتی ہیں وہ ساتھ بیٹھے نوجوان کو ان کی تعداد بتاتے ہیں، جو جی پی ایس پر جگہ کا تعین کرکے رجسٹر میں تعداد کا اندراج کرتے ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ نے 1972 سے 2019 تک انڈس ڈولفنز کی تعداد جاننے کے لیے 19 سروے کیے۔ نذیر1991 میں اس محکمے سے جڑنے کے بعد اب تک 11 ایسے سرکاری سرویز میں حصہ لے چکے ہیں۔
نذیر کے خاندان کی تین نسلیں انڈس ڈولفنز کی رکھوالی اور تحفظ پر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے بچپن ہی سے اپنے والد کرم الہیٰ میرانی کو یہ کام کرتے دیکھا۔
بعد میں وہ خود اسی مشن پر لگ گئے اور اب انہوں نے اپنے بیٹے نادر میرانی کو بھی انڈس ڈولفنز کی رکھوالی کی تربیت دی ہے، جو محکمے میں نوکری نہ ہونے کے باوجود یہ کام کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں سرکاری سروے میں نذیر احمد نے اپنے بیٹے کو بھی ساتھ رکھا تاکہ وہ بھی سروے کی تکنیکی معلومات حاصل کر سکیں۔
اس ڈالفن کو اس لیے اندھا کہا جاتا ہے کہ سمندری ڈالفن کے برعکس اس کی آنکھیں صاف تصویر دکھانے کے قابل نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈس ڈالفن لاکھوں برس سے گدلے پانیوں میں رہتی چلی آئی ہے جہاں ویسے بھی نظر نہیں آتا۔ اس لیے طویل عرصے سے استعمال نہ ہونے کے باعث ارتقائی عمل کے تحت اس کی بینائی ختم ہو گئی ہے، البتہ آنکھوں کی بیرونی شکل برقرار ہے۔
دو خواتین سمیت 22 رکنی ٹیم نے گڈو بیراج سے سکھر بیراج کے درمیان 200 کلومیٹر تک چار روزہ سروے کے بعد بتایا کہ دریائے سندھ میں ڈولفنز کی تعداد 1419 ہوچکی ہے، جبکہ 2011 کے سروے میں یہ تعداد 918 تھی۔
محکمے نے 1972 میں ڈولفنز کی تعداد جاننے کے لیے پہلا سروے کیا تھا، جو سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہر اور ایمیزون کی شائع کردہ مشہور کتاب 'دی سیکریٹس آف بلائنڈ ڈولفن' کے مصنف جورجو پیلیری کی نگرانی میں ہوا تھا، جس میں نذیر کے والد نے بھی حصہ لیا۔
نذیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: 'میری عمر اُس وقت چار یا پانچ سال ہوگی مگر مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے۔ جورجو پیلیری نے میرے والد کو ڈولفنز کے بارے میں جو بتایا اس سے مجھے لگا کہ ڈولفنز کو بچانے لے لیے مجھے بھی کچھ کرنا ہوگا۔ تب میں نے تہیہ کرلیا کہ میں بھی اپنے والد کی طرح ڈولفنز کے تحفظ پر کام کروں گا'۔
میرانی کے مطابق، وہ کئی سال بلا معاوضہ محکمے کے عملداروں کی مدد کرتے رہے۔ 1991 میں انہیں محکمے میں ’گیم واچر‘ کی ملازمت دی گئی۔
میرانی نے اپنی زندگی میں 150 انڈس ڈولفنز کو ریسکیو کرکے دریائے سندھ میں پہنچایا۔ یہ ڈولفنز پانی کی کمی یا خوراک کی تلاش میں دریائے سندھ سے نکل کر نہروں میں چلی گئی تھیں اور اگر ریسکیو کرکے انہیں واپس دریا میں نہ پہنچایا جاتا تو ان کی موت ہوسکتی تھی۔
میرانی سندھ کا ماہی گیر قبیلہ ہے، جس کا گذر بسر مچھلی کے شکار پر ہے مگر نذیر احمد کے والد نے ماہی گیری کو اپنانے کے بجائے ڈولفنز کے بچاؤ اور تحفظ کو اپنا شوق اور پیشہ بنا لیا اور نذیر احمد بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چل پڑے۔
انہوں نے بتایا: ’میں نے اپنے بیٹے نادر کو بھی ڈولفنز کے تحفظ پر لگایا ہے اور انہوں نے پچھلے 15 سالوں میں 50 ڈولفنز کو ریسکیو کیا۔ ان کی ملازمت نہیں ہے مگر یہ نیکی کا کام ہے۔ ایک دن میرے بیٹے کو بھی ملازمت مل جائے گی، اگر نہ بھی ملی تو بھی میرا بیٹا اس نیکی کے کام کو جاری رکھے گا‘۔
نادر نے اپنے والد کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے دادا اور والد کی طرح ڈولفنز جیسے خوبصورت جانور کو بچانے جیسا عظیم کام سرانجام دے رہے ہیں۔
’مجھے ایک این جی او چھ ہزار روپے دیتی ہے، جس میں ڈولفنز کے تحفظ کے ساتھ ان کے دفتر پر چوکیدار، مالی، باورچی اور مکینک بھی بننا پڑتا ہے مگر اس کے باوجود خوش ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جلد ہی مجھے محکمہ جنگلی حیات سندھ میں ملازمت دی جائے گی۔‘
انڈس ڈولفن کو بچانا کیوں ضروری ہے؟
دریائے سندھ میں پائی جانے والی ڈولفن کو سندھی زبان میں ’اندھی بلہن‘ کہا جاتا ہے۔
یہ ڈولفن مچھلی نہیں بلکہ بچے دینے اور بچوں کو دودھ پلانے والی ممالیہ ہے۔ بین الاقوامی تنظیم انٹرنینشل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نے اس صاف پانی کی ممالیہ جانور کو خطرے سے دوچار انواع کی ریڈ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے اور عالمی سطح پر انڈس ڈولفن کا شمار دنیا کے نایاب ترین ممالیہ جانوروں میں کیا جاتا ہے۔
حیاتیاتی ماہرین کے مطابق ڈولفن عام طور پر سمندر میں پائی جاتی ہے مگر پوری دنیا میں صاف پانی یا دریاؤں میں فقط چند مقامات پر ہی دریائی ڈولفنز پائی جاتی ہیں۔
ان میں بھارت میں گنگا ندی، بولیویا اور برازیل کے درمیان بولوین ندی کی ڈولفن، ایمیزون ندی کی ڈولفن، چین کے دریائے ینگٹز میں پائی جانے والی ڈولفن اور دریائے سندھ کی ڈولفن نمایاں جاتی ہیں۔ ان سب میں انڈس ڈولفن سب سے منفرد ہے کیوںکہ یہ اندھی ہے۔
خطرے کے لحاظ سے چین کے دریائے ینگٹز میں پائی جانے والی ڈولفن، انڈس ڈولفن کے بعد دوسرے نمبر پر نایاب سمجھی جاتی ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے صوبائی کنزرویٹر جاوید مہر کے مطابق دریائے سندھ میں موجود انڈس ڈولفن فطرت کی طرف سے دریا کی صحت جاننے کی ایک نشانی کے طور پر رکھی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’جب دریائے سندھ کے پانی میں آلودگی کی سطح بڑھ جاتی ہے تب ڈولفنز مرنا شروع ہو جاتی ہیں، جو ایک اشارہ ہے کہ انسان اب دریا کا پانی استعمال نہ کرے۔ دریائے سندھ کا پانی اُس وقت تک قابل استعمال ہے جب تک انڈس ڈولفن زندہ ہے‘۔