بلوچ علیحدگی پسند پاکستان میں چین کی مدد سے شروع کیے گئے منصوبوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے نئے حربے استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں، جن میں خودکش حملے بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ صورتحال چین کے لیے انتہائی پریشان کن ہے جو یہاں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
بلوچستان میں حالیہ ہفتوں کےدوران کئی بڑے حملے کیے گئے جن میں گوادر کے لگژری ہوٹل پر مسلح علیحدگی پسندوں کا دھاوا بولنا سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ گوادر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)منصوبے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق، سی پیک چین کے وسیع تجارتی فورم بیلٹ اینڈ روڈ کا پائلٹ منصوبہ ہے جس کے ذریعے بیجنگ خشکی سے گھیرے اپنے جنوب مغربی خطے سینکیانگ کو گوادر کے راستے بحیرہ عرب سے جوڑنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ پاکستان میں سڑکوں، ریلوے لائنوں، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور پائپ لائنوں کا جال بچھا رہا ہے۔
پاکستانی حکام گوادر کو مستقبل کا دبئی قرار دیتے ہیں جو پاکستان کے سب سے بڑے اور پسماندہ صوبے بلوچستان کا ساحلی شہر ہے مگر یہاں سب کچھ ٹھیک بھی نہیں ہے۔
بلوچستان فرقہ وارانہ شدت پسندوں، جہادیوں اور علیحدگی پسندوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ ہفتے کے روز پی سی ہوٹل پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکری علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے، جو اس سے قبل بھی شورش زدہ صوبے میں بڑے حملے کر چکی ہے۔
بی ایل اے کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ہوٹل پر اس لیے حملہ کیا گیا کیوں کہ یہاں چینی اور پاکستانی سرمایہ کار قیام کرتے ہیں۔ ’ہم چین کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں اپنے یک طرفہ منصوبوں کو ختم کرے اور پاکستان کی جانب سے بلوچ عوام کے قتلِ عام کی حمایت سے باز رہے ورنہ وہ اس کا جواب مزید حملوں سے دیں گے۔‘
واشنگٹن میں قائم ویلسن سینٹر سے وابستہ تجزیہ نگار مائیکل کوجیلمین کا کہنا ہے کہ بی ایل اے اس سے قبل بھی پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کو نشانہ بنا چکی ہے۔
مائیکل نے کہا کہ علیحدگی پسندوں کے حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے بڑے ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کر رہے ہیں جیسا کہ انہوں نے گذشتہ برس کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
’ایسا سمجھنے کی واضح وجہ ہے کہ پرل کانٹینینٹل ہوٹل حملے سے [بیجنگ] کو بڑا جھٹکا لگا ہے، یہ واقعہ ایک ایسی جگہ ہوا جس کو یقینی طور پر سی پیک کا تاج قرار دیا جا سکتا ہے۔ چین کا یہ منصوبہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے نشانے پر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہ طویل عرصے سے خود مختاری اور وسائل کی منصفانہ تقسیم مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستانی فوج کئی سالوں سے عسکریت پسندی کو دبانے کی کوششیں کر رہی ہے جبکہ فوجی حکام سنگین حقوق کے خلاف ورزیوں کے الزامات کو بھی مسترد کرتے ہیں۔
تاہم، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کاری کے خلاف بلوچ قوم پرست گروں میں اتحاد ہو گیا ہے جس نے علیحدگی پسند تحریک میں نئی توانائی بھر دی ہے، بلوچ قوم پرست چینی سرمایہ کاری کو اسے اپنے وسائل پر قبضہ تصور کرتے ہیں۔
اس دوران چین کی سرمایہ کاری سے تعمیر ہونے والے منصوبوں اور چینی کارکنوں کی حفاظت کے لئے پاکستان نے اپنے عزم کو دہرایا ہے، جس سے فوج کے موقف کی تائید ہوتی ہے مگر بلوچ عوام میں اس سے عدم استحکام کو فروغ ملے گا۔
بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے خودکش حملوں کے آغاز کے بارے میں قوم پرست سیاست دان جان محمد بلیدی نے صورتحال کو ناقابل یقین اور ناقابل تصور قرار دیا کیوں کہ ان کے نزدیک یہ تحریک سوشلسٹ اصولوں پر قائم تھی نہ کہ جہادی طرز پر۔
انہوں نے وضاحت کی ’جب مقامی باشندے مزاحمت کرتے ہیں تو وہ اغوا کر لیے جاتے ہیں، ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں دریافت ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت نے بلوچ نوجوانوں کے لیے اپنے آپ کو اڑانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا۔ ’اور اب چینیوں کی آمد کے بعد بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملے بین الاقوامی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ ان کو اب یہی راستہ دکھائی دے رہا ہے‘۔
بلیدی نے کہا کہ چینیوں کے خلاف بلوچوں کا غصہ فطری ہے لیکن علیحدگی پسندوں کے لئے حقیقی دشمن اب بھی پاکستانی ریاست ہی ہے۔
تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ جب تک حقیقی دشواریوں کو حل نہیں کیا جاتا بلوچستان میں بغاوت کسی نہ کسی سطح پر جاری رہ سکتی ہے۔
مائیکل نے اتفاق کیا کہ بلوچ قوم پرست ریاست کی جانب سے طویل عرصے سے روا رکھے ’ظالمانہ‘ اور ’غاصبانہ‘ رویوں سے بد دل ہو گئے ہیں جبکہ فوج کی زمینی پالیسیوں نے بھی آگ پر تیل کا کام کیا ہے۔
’کم از کم اعلانیہ طور پر، بیجنگ نے پاکستان کے [عسکریت پسندوں کے خلاف] کریک ڈاؤن کی حمایت کی ہے اور جب چینی میڈیا پی سی ہوٹل حملے کی وسیع پیمانے پر رپورٹنگ کر رہا تھا تو یہ تاثر نہیں دیا گیا کہ یہ حملہ اصل میں چینی سرمایہ کاروں کے خلاف تھا۔‘
بیجنگ ان خطرات کے بارے میں کیا کر سکتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔ امریکہ میں مقیم ایک بلوچ رہنما نے اے ایف پی کو بتایا کہ چینی حکام نے بلوچ قوم پرستوں سے اس سلسلےمیں مدد طلب کی اور بدلے میں انہیں وطن واپسی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اے ایف پی نے اس دعوی کی توثیق نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے علم کے مطابق وہ [چینی حکام] امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں مقیم نصف درجن سے زائد قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ اب بھی رابطے میں ہیں‘۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی سید علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں مذہبی فرقہ واریت اور مزاحمتی تحریکوں کو نظریاتی مدد حاصل ہے، اس لیے بعض اوقات ایسے واقعات کم ہوتے ہیں یا مکمل طورپر رک جاتے ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے ان واقعات کو مکمل طور پر روکنے سے قاصر ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں دو دہائیوں کے دوران آنے والی مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے انداز میں اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی مکمل طورپر کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا۔