پاکستان میں مسلسل بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے حالیہ اقدامات کے تحت بدھ کو اسلام آباد میں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے چوتھے اجلاس میں آبادی کنٹرول کرنے کے مختلف زاویوں کا جائزہ لیا گیا جبکہ اسی ضمن میں جمعرات کو صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں ’پرووینشل پاپولیشن ٹاسک فورس‘ کا تیسرا اجلاس منعقد ہوا تھا۔
خیبر پختونخوا میں ہونے والے اس اجلاس میں ٹاسک فورس کی کارکردگی، اقدامات اور اہداف پر نظر ڈالی گئی۔
اس حوالے سے سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق، پاکستان میں بڑھتی آبادی کے باعث وسائل میں مسلسل کمی اور متنوع معاشی و سماجی مسائل نے حکومت پاکستان کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں حکومت نے عملی اقدامات کا ایک نیا سلسلہ شروع کرتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کے ایک حالیہ اجلاس میں قومی اور صوبائی سطح پر پاپولیشن ٹاسک فورسز کے قیام کا فیصلہ کیا۔
اسی سلسلے میں خیبر پختونخوا حکومت نے 2030 تک آبادی میں اضافے کی شرح 2.8 فیصد سے 1.7 فیصد تک کم کرنے کا ہدف مقرر کر لیا ہے، جس کے حصول کے لیے صوبہ بھر میں 320 خاندانی بہبود آبادی مراکز قائم کیے جائیں گے، جن میں 120 مراکز نئے ضم شدہ اضلاع میں بھی قائم کیے جائیں گے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کی سربراہی میں جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے 45 دن کے اندر ان مراکز کو فعال بنانے کے احکامات جاری کیے۔ علاوہ ازیں نئے اقدامات کے تحت اب خیبر پختونخوا کے تمام نجی و سرکاری ہسپتال خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات و سہولیات بہم پہنچانے کے پابند ہوں گے۔
آبادی میں کمی لانے کے لیے علما کے کردار کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے خیبر پختونخوا میں محکمہ بہبودی آبادی کے تعاون سے 1800 سو علما کو بھی تربیت دی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ بہبود آبادی کے ڈائریکٹر فرید خان مروت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ علما کی تعداد کو 1800 سے ساڑھے تین ہزار تک بڑھایا جائے گا۔
’ہم نے دو سو علما کو ماسٹر ٹرینر کے طور پر ٹریننگ دی ہے جنہوں نے اپنی اپنی کمیونٹی میں جاکر مزید علما کو تربیت دی، اس طرح 1800 علما کی تربیت مکمل ہوئی۔ اس کے علاوہ سال 2020 و 2021 میں خاندانی بہبود آبادی کے مراکز میں تین لاکھ 45 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج ہوا ہے جبکہ سات لاکھ 69 ہزار کے قریب افراد کو خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈائریکٹر فرید خان نے مزید بتایا کہ جن علاقوں میں بہبود آبادی کے مراکز نہیں ہیں وہاں 3880 موبائل سروس یونٹس اور ایکسٹینشن کیپمس کا انعقاد کیا گیا، تاکہ لوگوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جا سکے۔
’خیبر پختونخوا کی 31 میں سہ 18 جامعات کے سال اول کے تعلیمی نصاب میں آبادی کے محرکات کے مضمون کو بھی شامل کیا گیا ہے، جبکہ دیگر تیرہ جامعات کو بھی اس میں بہت جلد شامل کر لیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ شادی کے بندھن میں بندھنے والے جوڑے کو خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے کاؤنسلنگ کی سہولت بھی فراہم کی جائے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ نئے شادی شدہ جوڑے اور ان کے خاندان والوں کی صوابدید پر ہوگا کہ وہ اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غریب خاندانوں میں فیملی پلاننگ کی حوصلہ افزائی کے لیے مراعات دینے پر بھی سوچا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا پاپولیشن ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے صوبائی کابینہ کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جو صوبائی حکومت کو تجاویز دے گی۔
آبادی میں اضافہ سے کون سے مسائل جنم لے رہے ہیں؟
یونیورسٹی آف پشاور کے شعبہ سوشل ورک کے پروفیسر شکیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے آج معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اور خطرناک وباؤں کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان مسائل میں ہر سال اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے لہذا اگر پوری دنیا نے مل کر کوئی حل نہ ڈھونڈا، تو انسان خود اپنی تباہی کا ذمہ دار ہوگا۔
’آبادی میں اضافہ پانی کی قلت، موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کی کمی، سیاسی غیر استحکام اور قدرتی وسائل پر جھگڑوں کا باعث بن رہا ہے۔ پانی، زمین اور توانائی پر پہلے ہی تنازعات چل رہے ہیں، آبادی میں اضافے سے ہی مختلف وبائیں پھوٹ رہی ہیں جن سے نمٹنے کے لیے دنیا تیار نہیں ہے۔‘
شکیل احمد نے مزید کہا کہ ’آبادی میں اضافے کی وجہ سے ہر گاؤں اور شہر میں زرعی زمین کم ہونے کی وجہ سے اجناس دوسرے شہروں، صوبوں اور ممالک سے درآمد کرنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔‘
’پہلے جہاں ایک گاؤں میں قدرتی وسائل زیادہ اور آبادی کم تھی وہاں گندم اور دوسرے اجناس کم قیمت پر دستیاب تھے۔ 20 سال قبل جہاں ایک خاندان کے لوگ ایک گھر میں رہتے تھے، 20 سال بعد انہیں الگ گھروں کی ضرورت پیش آئی اور وہ مزید کم از کم چار پانچ گھرانوں میں تقسیم ہوئے۔ یہی فارمولا چھوٹے اور بڑے لیول پر لاگو کیا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ مہنگائی کیوں زیادہ ہے اور ملکی و صوبائی مسائل کیوں بڑھ رہے ہیں۔‘
خیبر پختونخوا حکومت کے سیکرٹری محکمہ بہود آبادی سید عالمگیر شاہ کے مطابق، ’پاکستان بننے کے بعد خیبر پختونخوا کی آبادی 45 لاکھ تھی، جو موجودہ وقت میں تقریباً چار کروڑ کے قریب پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف دو نسلوں میں یہ آبادی 31 ملین اضافے کے ساتھ سات گنا اضافہ ہے، لہذا اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو آئندہ 25 سالوں میں اس میں دو گنا اضافہ ہو جائے گا۔
پروفیسر شکیل احمد کے مطابق، آج دنیا کی آبادی تقریباً 7.8 ملین سے زائد ہے جو کہ 22ویں صدی تک 10.8 تک پہنچ جائے گی۔
تاہم اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں افزائش نسل میں کمی واقع ہو رہی ہے، لہذا اقوام متحدہ کے مطابق، اگر خواتین نے اس سلسلے میں تعاون کیا تو دلچسپ طور پر اگلی صدی تک دنیا کی آبادی 7.3 تک نیچے آسکتی ہے۔
عمرانیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں مختلف قدرتی و انسانی آفات کے نتیجے میں اموات آبادی میں توازن قائم رکھنے کا ایک فطری نظام ہے، ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں شرح اموات کے مقابلے میں شرح پیدائش زیادہ ہے۔
صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق، دنیا میں بچوں کی شرح اموات میں کمی اور اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔