(عالمی یومِ آبادی 2020 کے موقعے پر خصوصی تحریر)
پاکستان میں آبادی کے مسئلے کی خوفناکی سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا موازنہ ایک اور ملک سے کیا جائے جو کبھی ہمارا ہی حصہ تھا، یعنی سابقہ مشرقی پاکستان اور آج کا بنگلہ دیش۔
آج بنگلہ دیش کی آبادی 16 کروڑ 50 لاکھ ہے اور اس میں اضافے کی شرح 1.5 فیصد ہے جبکہ ہماری آبادی میں سالانہ 2.40 فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے بلند ہے۔
پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش نے آبادی پر موثر کنٹرول کرکے اسے اپنے وسائل کے مطابق بنایا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بنگلہ دیش ہر میدان میں ہم سے آگے نکل گیا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ کہ ان کا ٹکہ ہمارے روپے سے دوگنا ہو گیا ہے۔ وہاں اوسط عمر 72 سال جبکہ ہماری 66 سال ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق بنگلہ دیش میں 32.2 فیصد عورتیں کام کرتی ہیں جبکہ پاکستان میں 25.1 فیصد، آج ان کی برآمدات 36 ارب ڈالر اور ہماری 20 ارب ڈالر ہیں۔
عالمی بینک کے مطابق گذشتہ سال بنگلہ دیش کی معیشت میں شرح نمو 8.2 فیصد جبکہ پاکستان کی ایک فیصد تھی۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے جب سابق ڈی جی پاپولیشن، نیشنل ہیلتھ سروسز عبدالغفار خان سے رابطہ کیا تو انھوں نے پاکستان میں آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ سیاسی حمایت کے فقدان کو قرار دیا اور کہا کہ ’چونکہ اس موضوع کو سماج کی حمایت حاصل نہیں اس لیے حکومتیں چاہتی ہیں کہ وہ ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کریں جس کے نتائج فوری ہوں۔
’حالانکہ آبادی پر کنٹرول کے بغیر ترقیاتی منصوبے نتیجہ خیز ہو ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ جب کسی جگہ ایک ہسپتال، کالج یا سڑک بنائی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اب ایسے اور ہسپتال یا سڑکیں چاہییں۔
’ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف آبادی پر کنٹرول کے لیے ہونے والے اخراجات کو سرمایہ کاری کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آپ ایک ڈالر سرمایہ لگائیں گے تو بدلے میں چار ڈالر فائدہ ہو گا۔
لندن کانفرنس 2012 میں پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جی ڈی پی کا 2.5 فیصد اس مقصد کے لیے صرف کرے گا مگر آج صحت، فیملی پلاننگ اور ویمن اپ لفٹنگ سمیت تمام سرکاری اور غیر سرکاری اخراجات ملائے بھی جائیں تو وہ جی ڈی پی کا 0.7 فیصد بھی نہیں بنتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک اور بڑا مسئلہ 18ویں ترمیم کا ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی بہت اچھی ہے مگر کیا صوبے ان 19 محکموں کی ذمہ داریاں لینے کو تیار بھی تھے جنہیں وفاق نے یک لخت اپنے سر سے اتار پھینکا؟
’چنانچہ 2010 سے 2015 تک ہمارے سارے اشاریے منفی میں چلے گئے۔ میں اسے سیاہ دور کہتا ہوں کیونکہ صوبوں نے پانچ سال کچھ نہیں کیا۔ انھوں نے 16-2015 میں جا کر کچھ اقدامات شروع کیے۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ این ایف سی ایوارڈ سمیت صوبوں کی قومی اسمبلی میں سیٹوں سمیت سب کچھ آبادی سے مشروط ہے تو صوبے کیوں چاہیں گے کہ ان کی آبادی کم ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالغفار خان نے کہا کہ ’میں نے جب چیف جسٹس کو صورت حال پر بریفنگ دی تو انھوں نے از خود نوٹس لے لیا، جس پر حکومت کو ٹاسک فورس بنانی پڑی اور مشترکہ مفادات کونسل میں اس کی منظوری دی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی پورا لائحہ عمل دیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ عمل درآمد کہاں ہے؟
’جب پاکستان میں حکومت، انتظامیہ اور سماج سمیت کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے تو پھر آبادی کا بم پھٹتا رہے گا ور تباہی ہوتی رہے گی۔‘
پنجاب کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.1، سندھ میں 2.4،خیبرپختونخوا میں 2.9 اور بلوچستان میں 3.4 فیصد ہے۔ کل آبادی میں پنجاب کا حصہ 1998 میں 56 فیصد تھا جو 2017 میں کم ہو کر 53 فیصد رہ گیا ہے۔
پاکستان میں ترقی سے ہونے والے ثمرات کا ایک بڑا حصہ افزائش آبادی کی بلند شرح کی نظر ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، آمدنی اور بنیادی سہولیات کا معیار بڑھنے کی بجائے روز بروز گر رہا ہے۔ آج پاکستان میں شرح خواندگی 57 فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں 73 فیصد ہے۔
بنگلہ دیش میں بیروزگاری کی شرح 4.19 جبکہ اس سال کے اختتام تک پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 9.56 فیصد پہنچنے کی پیشن گوئی ہے۔ اگر اس شرح کو صرف نوجوانوں تک محدود کیا جائے تو یہ شرح اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
جس حساب سے آبادی بڑھ رہی ہے اس حساب سے جب وسائل نہیں بڑھتے تو سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری کے ساتھ عدم غذائیت کا آتا ہے جو بڑھتے عمر کی بچوں کی صحت کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ 18-2017 میں پانچ سال سے کم عمر کے 38 فیصد بچے ایسے ہیں جن کے قد ان کی عمر کے مطابق نہیں بڑھ سکے۔
1947 میں پانی کی فی کس دستیابی 5653 مکعب میٹر تھی جو اب کم ہو کر 1000 مکعب میٹر رہ گئی ہے جو آنے والے چند سالوں میں مزید نصف رہ جائے گی جو تباہ کن ہو گی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وزارت بہبود آبادی کے سابق ترجمان الطاف پرویز قادر ہاشمی نے کہا کہ ’پاکستان میں آبادی پر موثر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ ایک روایتی اسلامی معاشرہ بھی ہے جہاں آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ آبادی میں کنٹرول اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ دوسری طرف بنگلہ دیش نے ہم سے الگ ہوتے ہی قومی ضروریات کے مطابق پالیسی بنائی اور آج اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
’دوسرا یہ کہ اکثر لوگ جب تک لڑکا نہیں پیدا ہوتا، بار آوری جاری رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے لوگوں کو مناسب شعور دیا جائے تو بھی آبادی کم کی جا سکتی ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ وزیراعظم عمران خان آبادی پر کنٹرول کی ایک موثر کمپین لانچ کرنا چاہتے تھے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل نے روک دیا ہے کہ یہ غیر اسلامی ہے۔
’اب ان حالات میں ہم آبادی میں کمی کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟‘
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈیز کی ڈائریکٹر عذرا عزیز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کم عمری کی شادیاں بھی آبادی میں اضافے کی ایک وجہ ہیں۔ غریب لوگ جن کے بچے نہیں پڑھتے وہ جلدی اپنے بچوں کی شادیاں کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری 35 فیصد آبادی 14 سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے، اس لیے کم عمر کی شادیوں کے حوالے سے قانون سازی کی جانی چاہیے۔
1950 میں آبادی کے لحاظ سے ہم دنیا میں 14 ویں نمبر پر تھے آج پانچویں پر ہیں۔ ہم یہ بنیادی نکتہ نجانے کب سمجھیں گے کہ مہنگائی، بیروزگاری، عدم تحفظ، صحت و تعلیم کی سہولتوں کا فقدان، سڑکوں اور بازاروں میں بے پناہ رش، ماحولیاتی آلودگی سمیت تمام مسائل کی وجہ آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہے۔
آبادی ہم سب کو یاجوج ماجوج کی طرح کھا رہی ہے، ہمیں ختم کر رہی ہے۔