’اجلاس کے شرکا میں سے کسی نے بھی سرحد پار پاکستان کی بات نہیں کی۔ باتیں تو ملک کے بارے میں ہوئیں اور وہ بھی بھارتی آئین کے دائرے میں رہ کر۔‘
یہ الفاظ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی کے بعد معرض وجود میں آنے والی ’اپنی پارٹی‘ کے صدر سید محمد الطاف بخاری کے ہیں۔
’اپنی پارٹی‘ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی ’بی ٹیم‘ کہلاتی ہے۔ اس کے صدر نے جمعرات کی شام بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ کے باہر نامہ نگاروں سے گفتگو کی۔
نئی دہلی میں جمعرات کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر جموں و کشمیر کی سبھی ’بھارت نواز‘ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کی۔
اجلاس میں آٹھ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 14 سیاسی رہنماؤں بشمول چار سابق وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔
بھارت کے وفاقی وزیر داخلہ امت شاہ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال، کشمیر میں تعینات بھارتی حکومت کے نمائندے، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور وزیر اعظم کے دفتر میں تعینات وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔
یہ اجلاس مبصرین کی توقعات کے برعکس ثابت ہوا ہے کیوں کہ وزیر اعظم مودی نے کشمیری سیاسی رہنماؤں کو خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی کا وعدہ کیا ہے نہ ریاستی درجے کی فوری بحالی کا۔
جہاں تک بات مسئلہ کشمیر پر پاکستان سے مذاکرات کی ہے تو الطاف بخاری اور کانگریس کے سینیئر رہنما غلام نبی آزاد کے مطابق تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے دوران کسی نے بھی پاکستان کا نام نہیں لیا۔
اجلاس کے اختتام پر وزیر اعظم مودی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ آج کا اجلاس اس خطے کی تعمیر و ترقی کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔
الطاف بخاری نے کہا: ’وزیر اعظم نے ہم سے کہا کہ آپ سب لوگ اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی کے عمل میں حصہ لیں پھر ہم وہاں انتخابات کرائیں گے۔‘
غلام نبی آزاد کے مطابق وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم ریاستی درجے کی بحالی کے وعدہ بند ہیں لیکن پہلے اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی اور انتخابات ہوں۔
جب ان سے نامہ نگاروں نے پوچھا کہ کیا اجلاس کے دوران پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی یا کسی دوسرے رہنما نے پاکستان سے مذاکرات کی بات کی تو ان کا کہنا تھا: ’اندر پاکستان سے مذاکرات کی کسی نے بات نہیں کی۔‘
آزاد نے کہا کہ اجلاس کے دوران کئی رہنماؤں نے آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی پر بات کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ چوں کہ ان دفعات کی بحالی کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے لہٰذا عدالتی فیصلے کا انتظار کیا جائے۔
’ہم نے پانچ مانگیں حکومت کے سامنے رکھیں۔ ان میں ریاستی درجے کی جلد بحالی، اسمبلی انتخابات کا انعقاد، زمین اور نوکریوں کو آئینی تحفظ، کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اور سبھی سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔‘
غلام نبی آزاد نے مزید کہا کہ اجلاس خوشگوار ماحول میں منعقد ہوا اور سب کو بولنے کا پورا موقع دیا گیا۔
’لوگ کافی غصے میں ہیں‘
پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کی نائب صدر محبوبہ مفتی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم مودی سے کہا کہ کشمیری عوام خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرے گی۔
’میں نے وزیر اعظم سے کہا کہ خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی سے کشمیر میں لوگ کافی غصے میں ہیں۔ میں نے کہا ہمارے لوگ اس کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں گے کیوں کہ یہ ہماری شناخت سے جڑا معاملہ ہے۔
’یہ دفعہ ہمیں پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت رہنماؤں نے عطا کی تھی۔ میں نے کہا کہ آپ چین کے ساتھ بات کرتے ہیں تو کشمیریوں سے بات کرنے میں کیا حرج ہے۔
’کشمیر کی سرحدوں پر ہونے والی دو طرفہ ہند – پاک تجارت بحال کی جائے۔ کشمیریوں کے ساتھ سختی بند کی جائے اور جیلوں میں بند قیدیوں کو جلد از جلد رہا کیا جائے۔‘
پی اے جی ڈی کے ایک اور رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’ہم نے وزیر اعظم مودی سے کہا کہ پانچ اگست 2019 کو لیے گئے یکطرفہ فیصلوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
’ہم نے ان سے کہا کہ پانچ اگست 2019 کے فیصلے غلط تھے، لیکن ہم قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لیں گے۔
’ہم نے وزیر اعظم سے یہ بھی کہا کہ کشمیری عوام اور بھارت کے درمیان دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اعتماد کو بحال کیا جائے۔‘
بھارتی حکومت نے کشمیر کی سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے اس اجلاس کا کوئی ایجنڈا طے نہیں کیا تھا۔
کشمیر میں تعینات کانگریس پارٹی کے سربراہ غلام احمد میر نے گذشتہ روز انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا تھا: ’میں نے داخلہ سیکریٹری سے سوال کیا تھا کہ میٹنگ کا ایجنڈا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کسی بھی معاملے یا موضوع پر بات کر سکتے ہیں۔
یہ ایک تکنیکی غلطی ہے کہ وزیر اعظم کی سطح پر میٹنگ ہے اور وہ بھی کسی ایجنڈے کے بغیر۔ ہمارا میٹنگ میں وزیر اعظم سے پہلا سوال یہی ہو گا کہ آپ کی میٹنگ کا ایجنڈا کیا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے سری نگر میں کئی مقامی لوگوں سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ انہیں بھارتی حکومت سے کسی بھلائی اور ہمدردی کی کوئی امید نہیں ہے۔
تاہم اس کے برعکس بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے اس اس اجلاس میں خاصی دلچسپی دکھائی اور دن بھر انٹرنیٹ یا ٹی وی سیٹوں سے جڑے رہے۔
اس دوران بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتاز بینرجی نے جمعرات کو کلکتہ میں کہا کہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی سے بھارت کا نام عالمی سطح پر داغدار ہو گیا ہے۔
’خصوصی آئینی حیثیت اور ریاست کا درجہ چھیننے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ لوگوں سے آزادی کیوں چھینیں گے؟ اس کی وجہ سے ہماری عالمی سطح پر بہت بدنامی ہوئی۔‘
کل کے ’لٹیرے‘ آج کے ’مہمان‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کے اجلاس میں وہ تین سابق کشمیری وزرائے اعلیٰ (ڈاکٹر فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ) بھی شریک تھے جنہیں بی جے پی کے رہنما گذشتہ دو برسوں سے 'لٹیرے' اور 'گپکار گینگ' کے ناموں سے پکارتے آئے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے سینیئر رہنما اور رکن پارلیمان جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کل تک کہا جاتا تھا کہ یہ ’گپکار گینگ‘ ہے لیکن آج اسی گینگ کے رہنما وزیر اعظم مودی کے بلائے ہوئے مہمان تھے۔
’ان کی طرف سے ہر روز شور مچایا جاتا تھا کہ کشمیر کو عبداللہ اور مفتی خاندانوں نے لوٹا ہے لیکن اس اجلاس میں ان کی شرکت سے پورے ملک میں سگنل گیا ہے کہ یہ دو خاندان کتنے اہم ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں: ’پچھلے دو برسوں کے دوران پورے بھارت میں یہ بیانیہ بیچا گیا کہ کشمیر اس وجہ سے تعمیر و ترقی کے لحاظ سے پیچھے رہا کیوں کہ وہاں عبداللہ اور مفتی خاندان نے لوٹ مچائی ہے۔
’غلط بیانی کے ذریعے مقامی کشمیری رہنماؤں کی کردار کشی کی گئی، لیکن وزیر اعظم نے انہیں آج کے اجلاس میں بلا کر خود اپنے بیانیہ کی نفی کی ہے۔ وزیر اعظم مودی کو اب سمجھ آئی ہے کہ یہی وہ رہنما ہیں جنہیں کشمیری عوام کا اعتماد حاصل ہے۔‘
حسنین مسعودی کے مطابق بی جے پی حکومت نے کشمیر میں پچھلے دو برسوں کے دوران بعض نئے چہرے متعارف کرانے کی جی توڑ کوششیں کیں لیکن وہ چہرے عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر پائے۔
’اگر ان کے وہ چہرے عوامی مقبولیت حاصل کرتے تو آج کے اجلاس میں صرف وہی ہوتے ہم نہیں۔ اگر کوئی کشمیری عوام کی ترجمانی کرتی ہے تو وہ پی اے جی ڈی میں شامل جماعتیں ہیں۔
’میں کھل کر کہنا چاہتا ہوں کہ بھارتی حکومت کی پہلے سے پالیسی رہی ہے کہ کشمیر میں گھر گھر سیاسی جماعتیں اور رہنما پیدا کئے جائیں تاکہ ان کو تقسیم در تقسیم کیا جا سکے۔‘
پانچ اگست 2019 کے بعد پہلا اجلاس
پانچ اگست 2019 کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ کشمیر کے بھارت نواز سیاسی رہنماؤں کو وزیراعظم مودی سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
بھارت میں برسر اقتدار بی جے پی کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو نہ صرف مسلم اکثریتی کشمیر کی حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی بلکہ اس متنازع خطے کو دو حصوں میں تقسیم کرکے وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تبدیل کر دیا تھا۔
بھارتی حکومت نے یہ سخت اقدامات اٹھانے سے ایک روز قبل یعنی چار اگست کو اکثر بھارت نواز کشمیری سیاسی رہنماؤں بشمول تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو سخت قوانین کے تحت نظر بند کر دیا تھا۔
بعد ازاں ان میں سے کسی کو سات ماہ بعد تو کسی کو 14 ماہ بعد رہا کر دیا گیا۔ محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کے دو رہنما ایسے ہیں جنہیں گذشتہ روز وزیراعظم مودی کے اجلاس کے دعوے نامے تقسیم ہونے کے دوران ہی رہا کیا گیا۔
وزیر اعظم مودی کے اجلاس میں جن 14 سیاسی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا تھا انہیں میٹنگ میں شرکت سے قبل کرونا (کورونا) ٹیسٹ کی منفی رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا تھا۔
جن سیاسی رہنماؤں نے اجلاس میں شرکت کی ہے ان میں نیشنل کانفرنس سے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ، پی ڈی پی سے محبوبہ مفتی، کانگریس سے غلام نبی آزاد، تارا چند اور غلام احمد میر، پیپلز کانفرنس سے سجاد غنی لون اور مظفر حسین بیگ، اپنی پارٹی سے الطاف بخاری، بی جے پی سے رویندر رینہ، نرمل سنگھ اور کویندر گپتا، سی پی آئی (ایم) سے محمد یوسف تاریگامی اور نیشنل پنتھرس پارٹی سے پروفیسر بھیم سنگھ شامل ہیں۔
’گپکار گینگ ہائے ہائے‘
نئی دہلی میں اس اجلاس سے قبل کشمیر کے ہندو اکثریتی جموں شہر میں سخت گیر ہندو تنظیموں بشمول راشٹریہ بجرنگ دل اور شیو سینا ڈوگرہ فرنٹ نے پی اے جی ڈی بالخصوص محبوبہ مفتی کے بیانات کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔
محبوبہ مفتی، جو پی اے جی ڈی کی نائب صدر ہیں، نے گذشتہ روز نامہ نگاروں سے گفتگو میں سوالیہ انداز میں کہا تھا کہ اگر نئی دہلی افغانستان میں طالبان سے بات کر سکتی ہے تو پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے میں کیا قباحت ہے۔
تاہم اس بیان پر بجرنگ دل کے کارکنوں نے جموں شہر میں محبوبہ مفتی کا پتلا نذر آتش کیا اور ’گپکار گینگ ہائے ہائے، محبوبہ مفتی ہائے ہائے، فاروق عبداللہ ہائے ہائے‘ جیسے نعرے لگائے۔
احتجاجیوں کی قیادت کرنے والے بجرنگ دل کے صدر راکیش بجرنگی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ یہ احتجاج ’گپکار گینگ‘ کے خلاف کر رہے ہیں جو ان کے بقول ہر وقت چین اور پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔
’گزشتہ روز جب گپکار گینگ کا اجلاس تھا تو محبوبہ مفتی نے کہا کہ وفاقی حکومت کو پاکستان سے بات چیت کرنی چاہیے۔ وفاقی حکومت واضح کر چکی ہے کہ جب تک پاکستان دہشت گردی کو ختم نہیں کرے گا تب تک اس کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ یہ گپکار گینگ وفاقی حکومت پر بار بار دباؤ کیوں ڈال رہی ہے؟
’اس گینگ کو بات چیت کے لیے بلانا ہی نہیں چاہیے تھا کیوں کہ یہ ہمیشہ بھارت دشمن طاقتوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے ہیں۔ اس گینگ کے رہنما ٹیرر فنڈنگ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو مذاکرات کے لیے بلائے جانے کے خلاف ہیں۔‘
شیو سینا ڈوگرہ فرنٹ نامی سخت گیر ہندو تنظیم کے کارکنوں نے بھی صدر اشوک گپتا کی قیادت میں محبوبہ مفتی اور پی اے جی ڈی کے خلاف احتجاج کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اشوک گپتا کا کہنا تھا: ’یہ گپکار والے پاکستان کو بیچ میں کیوں لاتے ہیں؟ ایسا کر کے یہ خود بات چیت کے سلسلے کو روکنا چاہتے ہیں۔
’وفاقی حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ خصوصی آئینی حیثیت بحال نہیں کی جائے گی تو یہ لوگ اس کی بحالی کی بھی باتیں کر کے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ پاکستان سے بات چیت اور خصوصی حیثیت کی بحالی دونوں چیزیں ناممکن ہیں۔‘
اس دوران مہاجر کشمیری پنڈتوں کی ایک تنظیم ’یوتھ آل انڈیا کشمیری سماج‘ نے وزیر اعظم مودی پر انہیں نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔
تنظیم کے کارکنوں نے جمعرات کو جموں شہر میں سنجے گنجو کی قیادت میں احتجاج کیا ہے۔
انہوں نے اس موقع پر کہا: ’آج کے اجلاس میں شرکت کے لیے کشمیری پنڈتوں کے کسی بھی نمائندے کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ اس کمیونٹی کو ہر بار نظر انداز کیا جاتا ہے۔
'اگر بھارت سرکار کہتی ہے کہ کشمیری پنڈت بھی سٹیک ہولڈر ہیں تو پھر ہمیں پچھلی تین دہائیوں سے نظر انداز کیوں کیا جا رہا ہے؟ ہمارا مطالبہ ہے کہ کشمیری پنڈتوں کی مستقل بازآبادکاری کے لیے کوئی بڑا فیصلہ لیا جائے۔‘