’لے چل وے سانوں نال وے پُنلا‘ گانے والی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی، اللہ دتہ لونے والا انتقال کر گئے۔
پنجاب کے معروف سرائیکی فوک گلوکار اللہ دتہ لونے والا پیر کی شب اچانک طبیعت خراب ہونے کے بعد ہسپتال پہنچنے سے قبل انتقال کرگئے۔
ان کے بیٹے اور بیٹیوں کی بیرون ملک سے آمد کے بعد بدھ شام 6 بجے نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔
اللہ دتہ لونے والا پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں پیدا ہوئے، وہیں سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے سکول کےاستاد کی ہدایت پر نعت خوانی شروع کی اور نعت خوانی میں ضلع جھنگ سے ڈویژنل مقابلہ جیت کر پہلی پوزیشن حاصل کی۔
اس کامیابی کے بعد انہیں موسیقی کا شوق پیدا ہوا اور انہوں نے اپنی مادری زبان سرائیکی میں ماہیے اور دوہے گانا شروع کیے۔ وہ اتنے زیادہ مشہور ہو چکے تھے کہ ان کا پہلا والیوم جب ریکارڈ ہوا تو بہت زیادہ تعداد میں فروخت ہوا۔
اللہ دتہ لونے والاکے داماد ملک شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ’وہ بیمار نہیں تھے بلکہ کئی سال پہلے انہیں پھیپھڑوں کا مسئلہ ہوا تھا جس سے اب وہ صحت یاب ہوچکے تھے۔ پیر کی شام آٹھ بجے اچانک ان کی طبیعت خراب ہوئی، ہم نے ریسکیو 1122کو کال کی لیکن جب وہ پہنچے تو انہوں نے بتایاکہ وہ خالق حقیقی سے جاملے۔ لیکن تسلی کے لیے ہم ڈی ایچ کیوہسپتال چنیوٹ لے گئے وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ یہ دم توڑ چکے ہیں۔‘
اللہ دتہ لونے والا 63 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ ان کے پانچ بچے ہیں، دو بیٹیاں بڑی ہیں جب کہ دو بیٹے ہیں جن میں گلوگار ندیم عباس اور وسیم عباس شامل ہیں۔
’ان کے بیٹے وسیم عباس اور ایک بیٹی یورپ میں رہتے ہیں جن کی آمد کا انتظار ہے اسی لیے بدھ کے روز شام جنازہ کا وقت رکھا گیا ہے۔‘
ملک شہزاد کے مطابق ’انہیں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازاگیا، انہوں نے بیرون ملک بھی اپنے فن کا لوہامنوایا،غریبوں کے ہمدرد تھے اور ان کی مالی مدد بہت کرتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’شروع میں وہ سکول میں نعت خواں مشہور ہوئے پھر دنیا بھر میں ان کی آواز گونجی، جب وہ گاتے توسننے والے مدہوش ہوجاتے تھے۔‘
’جب وہ نوحہ خوانی کرتے تو لوگ زارو قطار رونےلگتے تھے۔اللہ دتہ اب اللہ والاہوگیا۔ سروں سے بھر پور قدرے باریک ’ووکل کورڈز‘ کی وجہ سے اکثر پنجابی اور سرائیکی زبان کی مشکل ترین تانیں اللہ دتہ کی آواز میں ملائم ہو کر سُر بکھیرا کرتیں، اور پھر دوہے ایسے کہ سماں باندھ دیتے۔‘
ان کا معروف دوہا ’تیرے ہجر اچ روواں کُرلاواں، سجن پردیسیا‘ اس مہارت کی ایک عمدہ مثال ھے۔ ’ان کے سروں میں اور انداز میں ایسی عقیدت جھلکتی تھی کہ سننے والے مگن ہوجاتے۔ واقعہ کربلا نوحے کی صورت ایسا پڑھا کہ سننے والے روئے بغیر نہ رہ سکیں۔‘
لونے والا، چنیوٹ میں جنم لینے والے اللہ دتہ کے والد انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے کہ یہ اپنی بستی کے ناداروں کی مسیحائی کر سکیں، اللہ دتہ ڈاکٹر تو نہ بنے مگر اپنے مخصوص انداز اور سریلے لوک گیتوں کی وجہ سے پوری دنیا میں ’لونےوالا‘ کا ڈنکا ضرور بجا گئے۔
میں چھم چھم نچدی پِھراں بھی ان کا شہرہ آفاق ماہیا تھا۔