سورج کی طرف بڑھتا سب سے بڑا دمدار ستارہ

اوسط دمدار ستارے سے ایک ہزار گنا بڑا برنارڈینیلی برنسٹائن کامٹ 30 لاکھ سال سے زیادہ عرصے میں نظام شمسی میں داخل نہیں ہوا اور اب سورج کی جانب رواں ہے۔

کامٹ نیووائز کی ایک فائل تصویر جو جون 2020 میں زمین کے پاس سے گزرا تھا۔ سائنس دانوں کے مطابق برنارڈینیلی برنسٹائن کامٹ ایک اوسط کامٹ سے ہزار گنا بڑا ہے (اے ایف پی)

نظام شمسی کے مضافات سے ایک بہت بڑا سیارچہ سورج کی طرف بڑھ رہا ہے۔

یہ دمدار ستارہ جسے برنارڈینیلی برنسٹائن کا نام دیا گیا ہے ایک اوسط دمدار ستارہ سے ایک ہزار گنا بڑا ہے۔ اسے پہلی مرتبہ 2014 میں ہمارے نظام سمشی سے چار ارب کلومیٹر کے فاصلے پر دیکھا گیا تھا۔ یہ فاصلہ تقریباً اتنا ہی ہے جتنا کہ نیپچون کا ہے۔ دمدار ستارے کو پہلی مرتبہ دیکھے جانے اور رواں ماہ کے دوران یہ ہماری جانب بڑھتے ہوئے مزید ایک ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکا ہے۔

نظام شمسی کے میدان کے اعتبار سے دمدار ستارے کا مدار عمود میں ہے۔ وہ 2031 میں سورج کے قریب ترین مقام (جسے پیری ہلیئن) کہا جاتا ہے پر پہنچ جائے گا۔ لیکن اپنے حجم اور ہمارے نزدیک ترین ستارے سے قربت کے باوجود، شوقیہ ماہرین فلکیات اسے روشن ترین شکل میں بھی صرف بڑے دوربین کی مدد سے ہی دیکھ سکیں گے۔

یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے گیری برنسٹائن جنہوں نے دمدار ستارے کو دریافت کیا اور اسے نام دیا، کہتے ہیں: ’ہمیں امتیاز حاصل ہے کہ ہم نے دکھائی دینے والا شائد سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت کیا ہے۔ یا کم از کم یہ اس دمدار ستارے سے بڑا ہے جس پر اچھی طرح تحقیق ہو چکی ہے۔ یہ سیارہ کافی پہلے دریافت ہوا تھا جس سے لوگ سے اسے قریب آتے اور گرم ہونے کے دوران ارتقا کرتا ہوا دیکھ سکیں گے۔ یہ ستارہ 30 لاکھ سال سے زیادہ عرصے میں نظام شمسی میں داخل نہیں ہوا۔‘

مزید پڑھیے

اس دمدار ستارے کا ماحذ ’اورٹ بادل‘ میں ہے جو برفیلے سیارچوں کا مجموعہ ہے۔ یہ اجرام فلکی بہت بڑی مقدار میں دھول سے بنے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں کہ جب یہ بادل اب تک سمجھ میں آنے والی سائنس کے مطابق محض نظریے کی حد تک ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سیارے سورج کے گرد 0.03 اور 3.2 کے درمیان نوری سال کے فاصلے پر ہیں اور اربوں سال پہلے مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کی حرکت کی وجہ سے نظامی شمسی کے دوردراز کے مقامات پر پھیل گئے۔

پہلی بار دریافت ہونے والا دمدار ستارہ برنارڈینیلی برنسٹائن کو اورٹ بادل کا سب سے بڑا رکن سمجھا جاتا ہے اور یہ پہلا دمدار ستارہ ہے جو نظام شمسی کی طرف آنے والے اس راستے پر ہے جو اب دریافت ہو چکا ہے۔

ماہرین فلکیات کا ماننا ہے کہ اس حجم کے اور بھی کئی دمدار ستارے ہو سکتے ہیں جو دریافت نہیں ہوئے اور اورٹ بادل میں انتظار کر رہے ہیں۔ یہ ستارے پلوٹو اور بیرونی نظام شمسی میں ستارے کے گرد موجود پٹی کوئپر بیلٹ سے دور واقع ہیں۔

این او آئی آر لیب (نیشنل اوپٹیکل انفراریڈ ایسٹرونومی ریسرچ لیبارٹری) کے خلانورد ٹوڈ لاؤر کے بقول: ’اس (دمدار ستارے) کی اوٹ بادل میں موجود بڑے ستاروں کی نامعلوم تعداد اور نظام شمسی کے وجود میں آنے کے فوراً بعد ابتدا میں ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے والے برف اور گیس سے بنے بڑے اجسام کے ساتھ ان کے تعلق کو جاننے کے لیے بہت ضرورت تھی۔‘

این اوآئی آرلیب کے لیے نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے پروگرام ڈائریکٹر کرس ڈیوس نے اس میں مزید اضافہ کیا کہ ’برنارڈینیلی برنسٹائن جیسے بڑے دمدار ستارے کی دریافت ہمارے نظامی شمسی کی ابتدائی تاریخ کو سمجھنے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس