خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ پشاور نے اساتذہ سے ان کے پاسپورٹ اور ویزوں کی کاپیوں کا تقاضہ کر ڈالا ہے جس پر اساتذہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یونیورسٹی رجسٹرار کے دفتر سے جاری کیے گئے مراسلے، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، میں لکھا گیا ہے کہ 12 جولائی تک تمام شعبہ جات میں پڑھانے والے اساتذہ اپنے پاسپورٹ کے پہلے دو صفحات سمیت وہ صفحات بھی یونیورسٹی انتظامیہ کو جمع کروائیں، جن پر کسی ویزے کی مہر لگی ہوئی ہو۔
مراسلے میں یونیورسٹی کے شعبہ جات کے ساتھ ساتھ اسی یونیورسٹی کے تحت چلنے والے سکولوں کے پرنسپلوں سے بھی پاسپورٹ کی کاپی جمع کروانے کا کہا گیا ہے۔
اس حوالے سے جب پشاور یونیورسٹی کے ترجمان محمد نعمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے دو تین مقاصد ہیں۔
نعمان نے بتایا: ’یونیورسٹی ہر سال ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں رینکنگ کے لیے سالانہ رپورٹ جمع کرواتی ہے جس میں یونیورسٹی کی ٹیچنگ فیکلٹی کے بیرون ملک تعلیم کے سلسلے میں دورے بھی شامل ہوتے ہے، تاہم یونیورسٹی کے پاس چونکہ اساتذہ کے پاسپورٹ موجود نہیں ہوتے، اس لیے پتہ نہیں چلتا کہ کون سا استاد کس ملک میں کس مقصد کے لیے گیا۔‘
نعمان نے مزید بتایا کہ ’دوسرا مقصد یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کیمپس مینیجمنٹ سسٹم کے نام سے ایک ڈیجیٹل نظام بنانا چاہتی ہے جس میں تمام اساتذہ کے حوالے سے تفصیلات شامل ہوں گی تو پاسپورٹ کی تفصیلات بھی اسی میں شامل کی جائیں گی۔‘
بقول نعمان: ’اس طرح یہ بھی معلوم ہوگا کہ کس شعبے کے اساتذہ کے بیرون ملک کی کون سی یونیورسٹی کے ساتھ تعلیمی روابط ہیں، جس سے یونیورسٹی فائدہ اٹھا سکتی ہے، جبکہ اس سے یہ فائدہ بھی ہوسکتا ہے کہ یونیورسٹی کی جانب سے ایچ ای سی کو بیرون ملک کے تحقیقی مقالوں کی سپر وائزری کرنے کے لیے متعلقہ ملک کا دورہ کرنے والا پروفیسر دیا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم جب نعمان سے پوچھا گیا کہ جو مراسلہ رجسٹرار دفتر سے بھیجا گیا ہے اس میں تو پاسپورٹ جمع کروانے کا کوئی مقصد نہیں لکھا گیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی کی جانب سے مختصر مراسلہ لکھا گیا ہے، اس لیے اس میں تفصیل سے وجہ بیان نہیں کی گئی۔‘
ایک سوال کے جواب میں نعمان نے بتایا کہ کسی بھی سرکاری ملازم کو بیرون ملک جانے کے لیے متعلقہ محکمے سے این او سی لینا لازمی ہے اور انتظامیہ یہ نہیں سمجھتی کہ کوئی پروفیسر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جاتا ہے لیکن کم از کم اس سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا کہ اگر کسی نے سرکاری ملازم والا پاسپورٹ نہیں بنوایا ہے تو وہ بنوا لے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان میں کسی بھی سرکاری ملازمین کے لیے خصوصی پاسپورٹ بنوانا لازمی ہے جس پر سرکاری ملازم لکھا ہوتا ہے۔ کوئی بھی سرکاری ملازم اپنے محکمے سے این او سی لیے بغیر بیرون ملک سفر نہیں کرسکتا۔
تاہم یونیورسٹی کے اساتذہ رجسٹرار کی جانب سے پاسپورٹ کی کاپی جمع کروانے کے مطالبے پر تشویش کا شکار ہیں۔ جامعہ کے تمام ٹیچنگ سٹاف کی نمائندہ تنظیم پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن (پیوٹا) کے صدر ڈاکٹر فضل ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یونیورسٹی کے کسی قانون کے تحت انتظامیہ اساتذہ سے یہ تفصیلات نہیں مانگ سکتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے تو انتظامیہ حکومت کی جانب سے اس مراسلے کا ذکر کرے تاکہ مقصد واضح ہوجائے۔
ڈاکٹر ناصر نے بتایا: ’پاسپورٹ ایک ذاتی چیز ہے اور بغیر کسی مقصد کے یونیورسٹی کے اساتذہ کسی کو بھی اپنا پاسپورٹ نہیں دے سکتے۔ اگر حکومت کی جانب سے یا وزارت داخلہ کی جانب سے کوئی مطالبہ کیا گیا ہے تو یونیورسٹی اتنظامیہ واضح طور پر وہ مقصد بیان کرے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید اساتذہ کی ہڑتال کی وجہ سے اب یہ کوئی دوسرا حربہ استعمال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اساتذہ میں اس مطالبے پر شدید تشویش پائی جاتی ہے، لہذا یونیورسٹی انتظامیہ یہ واضح کرے کہ یہ تفصیلات کس مقصد کے لیے مانگی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ایسوسی ایشن نے پیر کو اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں اس پر تفصیلی بات ہوگی۔
دوسری جانب پشاور یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاسپورٹ کی تفصیلات صرف درس و تدریس سے وابستہ ملازمین سے مانگی گئی ہیں جبکہ انتظامیہ سے وابستہ ملازمین سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بغیر کسی مقصد اور وجہ بتائے ہم یونیورسٹی کو پاسپورٹ کی کاپی جمع نہیں کروائیں گے، تاہم اگر انتظامیہ یا حکومت نے پاسپورٹ جمع کرنے کی کوئی معقول وجہ بتا دی تو اس کے بعد ٹیچر ایسوسی ایشن پاسپورٹ جمع کروانے یا نہ کروانے کا فیصلہ کرے گی۔‘