چاند کی سطح پر آج تک 12 انسانوں نے قدم رکھا ہے اور وہ تمام کے تمام مرد تھے تو کیا انسان نے صنفی امتیاز کو خلا تک بھی پہنچا دیا ہے؟ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے۔
لیکن امریکی خلائی ادارہ ناسا صنفی مساوات قائم کرتے ہوئے اب ایک خاتون کو چاند پر اتارنے کا ارادہ رکھتا ہے جو بظاہر انسان کا ایک چھوٹا قدم ہو گا لیکن خواتین کے لیے ایک لمبی چھلانگ۔
ناسا نے رواں ہفتے آئندہ پانچ سالوں میں چاند پر واپسی کا اعلان کیا ہے اور اپالو مشن کے برعکس اس بار نئی سوچ اور نئے منصوبوں کے ساتھ چاند پر قدم جمائے جائیں گے جس میں وہاں ایک کیمپ کا قیام بھی شامل ہے۔
2024 لونر مشن میں ایک خاتون خلا باز کے لیے خصوصی نشست مختص کی گئی ہے جو پہلی بار چاند کی سطح پر چہل قدمی بھی کریں گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مشن کا نام یونانی دیوتا اپالو کی جڑواں بہن آرٹیمس کے نام پر رکھا گیا ہے۔
ناسا کے ایڈمنسٹریٹرجِم برڈینسٹائن کا کہنا ہے کہ یہ علامتی ہو یا غیر علامتی مگرایسا پہلی بار ہو گا کہ ایک خاتون چاند کی سطح پر قدم رکھیں گی۔
تاہم ’سائنس الرٹ‘ ویب سائٹ کے مطابق کچھ ماہرین کو شک ہے کہ یہ مشن ممکن ہو بھی پائے گا یا نہیں۔ کیوں کہ یقینی طور پر عزم رکھنے کے باوجود اس مشن کی ٹائم لائن غیر حقیقی ہے۔
خاص طور پر جب آپ جانتے ہوں کہ کانگریس نے ابھی تک صدر ٹرمپ کے اپ گریڈڈ بجٹ کی منظوری نہیں دی ہے، جس میں اس سال ناسا کے لئے مختص کی گئی اضافی ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی رقم بھی شامل ہے اور ہر سال ایجنسی کو مزید اربوں ڈالر دیے جانے کا امکان ہے۔
’بنیادی اخراجات کے علاوہ اس مشن کے لیے سب سے زیادہ طاقتور راکٹ ڈیزائن کیا جانا ہے، لانچنگ کا نیا نظام، لینڈنگ سسٹم، زمین اور چاند کے درمیان ایک تیرتا ہوا گیٹ وے سٹیشن اور خلا بازوں کے لیے نئے خلائی سوٹ۔ یہ سب اس وقت موجود نہیں ہیں۔‘
دوسری جانب ناسا اس حوالے سے پر امید ہے۔
ناسا کا ویڈیو پیغام میں کہنا تھا کہ: ’انسان اس پوری کوشش میں سب سے نازک عنصر ہے لیکن ہم اس کے باوجود انسانیت کے لیے ہی وہاں جائیں گے۔‘