اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں نوجوان جوڑے پر تشدد کے واقعے کی تحقیقات کرنے والی پولیس کی ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ جوڑے کو برہنہ کرکے 14 افراد کی موجودگی میں ڈھائی گھنٹے تک ویڈیو بنائی گئی تھی۔
پولیس کی تحقیقاتی ٹیم نے یہ انکشاف جوڈیشل مجسٹریٹ وقار گوندل کے سامنے کیا جس میں ان کا کہنا ہے کہ لڑکی اور لڑکے پر تشدد کی ویڈیو تین افراد نے بنائی۔
اسلام آباد کے علاقے ایف ایٹ میں کچہری کی تیسری منزل کے چھوٹے سے کمرہ عدالت میں منگل کو جوڈیشل مجسٹریٹ وقار گوندل کے سامنے جوڑے پرتشدد کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران مرکزی ملزم سمیت دیگر تمام ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔
واضح رہے کہ ابتدا میں گرفتاری کے بعد عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ دیا تھا جبکہ دوسری پیشی پر چار روزہ ریمانڈ دیا گیا تھا جس کے بعد منگل کو پولیس نے مزید سات روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی لیکن عدالت نے سات کے بجائے چار روزہ ریمانڈ کی منظور دی ہے۔
سماعت سے قبل ہی جوڈیشل مجسٹریٹ وقار گوندل کی عدالت سے غیر متعلقہ افراد کو باہر نکال دیا گیا تھا اورجوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت کے باہر سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی تھی۔
گذشتہ سماعت پر صحافیوں کو دھمکیوں کے تناظر میں آج سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی جبکہ پولیس کی اضافی نفری بھی تعینات تھی۔
سماعت میں سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ لڑکے سے چھ ہزار اسی وقت لے لیے گئے اور 11 لاکھ روپے وقتاً فوقتاً بلیک میل کر کے لیے جاتے رہے۔ مرکزی ملزم عثمان مرزا سے پسٹل اور دو موبائل فونز برآمد ہوئے ہیں۔
متاثرہ لڑکے اور لڑکی نے اپنے بیان میں مزید ملزمان کے نام بھی لیے ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم کے مطابق واقعے کے وقت ’مجموعی طور پر 14 یا 15 ملزمان موجود تھے جن میں سے تین نے ڈھائی گھنٹے تک ویڈیو بنائی اور اس لڑکے اور لڑکی کو برہنہ کر کے ان کے ساتھ غلیظ حرکات کرتے رہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ جوڑے کے بیان کے بعد کیس میں مزید دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔‘
عدالت کے استفسار پر سرکاری وکیل نے مزید بتایا کہ 375 اے کی نئی دفعات لگائی گئی ہیں جن میں عمر قید یا سزائے موت ہو سکتی ہے۔
’اس کے علاوہ ملزم سے جو پسٹل برآمد ہوا ہے اس کی الگ ایف آئی آر آئی نائن تھانے میں درج کروا دی گئی ہے۔ بھتہ وصولی پر دفعہ 384 کی دفعہ لگائی گئی ہے۔‘
پولیس کی یقین دہانی کے بعد متاثرہ لڑکے اور لڑکی نے کیس کی باقاعدہ پیروی کا آغاز کر دیا ہے، ان کی جانب سے وکیل حسن جاوید شورش نے کیس کی پیروی کی۔
وکیل حسن جاوید نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لڑکا اور لڑکی سکیورٹی مسائل کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے لیکن جتنا بہیمانہ یہ واقعہ ہوا ہے پولیس کو ڈیٹا کی ریکوری کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے حالات بنا دیے گئے ہیں کہ کوئی شادی شدہ جوڑا بھی ہوٹل جانے سے ڈرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مدعی کے وکیل حسن جاوید شورش نے مزید کہا کہ یہ مفاد عامہ کا کیس ہے عوام میں ڈر ہے اس واقعے کے بعد کہیں ٹھہریں گے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
’یہ ہمارا امتحان ہے متاثرین کے ساتھ جو ظلم بربریت ہوئی اس لیے مزید جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔‘
شفقت عباسی نے عدالت کو بتایا کہ وہ حافظ عطاالرحمن کے وکیل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حافظ عطاالرحمن حافظ قرآن ہے جس پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے ریمارکس دیے کہ ’پہلے دن میں نے اس سے سورہ یسین سنی تھی۔‘
ملزم کے وکیل نے موقف اپنایا کہ حافظ عطاالرحمن کی جانب سے تو روکا گیا کہ ایسا نہ کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس نے ویڈیو لیک کی اس کو بھی گرفتار کیا جائے۔
واضح رہے کہ ملزم حافظ عطا الرحمن کے وکیل شفقت عباسی مشرف دور میں کوٹلی ستیاں سے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی بھی رہ چکے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں چیئرمین پریس کونسل آف پاکستان رہ چکے ہیں۔
دوسری ملزم فرحان کے وکیل اخلاق اعوان نے دلائل دیے کہ عطا الرحمن اور فرحان کا کردار نہیں بنتا، ’اس کیس کو سوشل میڈیا کی حد تک نہیں بلکہ قانون کی نظر سے دیکھا جائے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’فرحان تو وہاں موجود ہی نہیں تھا بلکہ کشمیر ہائی وے پر تھا۔‘ جس پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ موبائل لوکیشن لی گئی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ ملزم فرحان کشمیر ہائی وے پر نہیں بلکہ اسی اپارٹمنٹ میں موجود تھے۔
ملزم فرحان کے وکیل نے مزید کہا کہ جب لڑکے اور لڑکی کا بیان آچکا تھا تو آج یہ دفعات میں اضافہ کیوں کر رہے ہیں۔
’انصاف یہ نہیں کہ وزیراعظم نے نوٹس لے لیا تو اب اس کو لٹکانا ہے۔ اگر ملزم بے گناہ ہے تو کیس سے رہا ہونا بھی اس کا حق ہے۔‘
رواں ماہ اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں یہ واقع فلیٹ میں موجود لڑکے اور لڑکی کو ایک گینگ کی جانب سے جنسی تشدد اور ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ واقعہ تقریباً چھ ماہ پرانا تھا لیکن ویڈیو رواں ماہ لیک اور وائرل ہونے کے باعث منظرعام پر آئی جس کے بعد پولیس نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کیا جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ویڈیو میں غیرانسانی حرکات دیکھ کر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
بعد میں وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا اور پولیس کو ہدایت دی کہ اسے مثالی کیس بنایا جائے تاکہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہ کر سکے۔