منگل کی صبح ٹرو پاویل کے دونوں بیٹوں، ڈیوڈ اور اسرائیل کو سکول میں ہونا چاہیے لیکن ان کے بیدار ہونے کے کچھ دیر بعد پاویل نے فیصلہ کیا کہ وہ آدھے دن کی چھٹی لیں گے۔
سکول کے بجائے وہ دونوں بچوں کو، جن کی عمریں آٹھ اور 10 برس ہیں، برمنگھم میں اپنے گھر سے ڈیڑھ گھنٹہ دور مانچسٹر میں انگلش سیاہ فام فٹ بالر مارکس رشفورڈ سے اظہار یک جہتی کے لیے تیار کی گئی خصوصی دیوار پر لے گئے۔
36 سالہ انٹرپرینورنے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میں نے کہا ٹھیک ہے بچوں میں اپنی ڈائری کلیئر کر رہا ہوں، میں سکول فون کررہا ہوں اور ہم اپنی یک جہتی کا مظاہرہ کرنے جائیں گے۔‘
انہوں نے اپنے بچوں سے متعلق کہا کہ ’ان دونوں نے بھی نسلی تعصب کا سامنا کیا ہے اور میرے خیال سے یہ بہت اہم ہے کہ یہ دیکھیں کہ اس طرح کے رویوں کے باوجود بھی وہ اوپر آسکتے ہیں، مجھے محسوس ہوا کہ وہ یہاں آکر جو سیکھیں گے وہ سکول میں انہیں سکھائے جانے کے برابر ہی ہوگا۔‘
صبح کے وقت ابر آلود موسم میں پاویل اور ان کے دو بچے ان سیکڑوں افراد میں شامل ہیں جو مانچسٹر کے علاقے ویتھنگٹن میں اس مشہور سڑک پر موجود ہیں جہاں رشفورڈ نے اپنا بچپن گزارا تھا۔
اس سڑک میں ایک دیوار پر رشفورڈ کی تصویر بنائی گئی ہے جسے یورو 2020 کے فائنل میں 23 سالہ فٹ بالر کی جانب سے پینالٹی مِس کرنے کے بعد مسخ کر دیا گیا تھا۔ اب بڑی تعداد میں لوگ رشفورڈ سے اظہار یکجہتی کے لیے یہاں آرہے ہیں جن کے پاس دل نُما پوسٹ کارڈز، محبت بھرے پیغامات، پھول اور برطانوی جھنڈے موجود ہیں جب کہ وہ اس بات کا پیغام دے رہے ہیں کہ نسلی تعصب کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔
دوپہر تک اس دیوار پر تعریفی اور محبت بھرے پیغاموں کی بھرمار ہوچکی تھی اور یہ کسی مزار کا سا منظر پیش کر رہا تھا، نہ صرف اُس مقامی لڑکے کے لیے جسے اس وقت اس کی ضرورت تھی بلکہ شاید ایک خیال کے لیے بھی۔ نفرت نہیں محبت، تقسیم نہیں ادخال۔۔ یہ تھا ویتھنگٹن۔ یہ تھا مانچسٹر۔
پاویل کہتے ہیں: ’اتنے لوگوں کو یہاں دیکھنا دل کو گرمانے والا احساس ہے، بہت سارے دوست یہاں ہیں، میں جانتا ہوں کہ استحصال چند لوگ ہی کرتے ہیں لیکن یہ چند لوگ ہی آپ کو گندا محسوس کراتے ہیں اور صدمہ دیتے ہیں۔ پھر یہ سب دیکھ کر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ اکیلے نہیں ہیں۔‘
اس پورے معاملے کے پیچھے جو کہانی ہے شاید آپ اس سے واقف ہوں گے۔
اتوار کو جیسے ہی رشفورڈ نے پینالٹی ضائع کی، اس یادگاری دیوار کو، جسے پہلی بار گذشتہ برس اکتوبر میں بنایا گیا تھا، نسلی تعصب سے مبنی جملوں سے آلودہ کردیا گیا۔ نہ صرف رشفورڈ کو نشانہ بنایا گیا بلکہ انگلش فٹ بال ٹیم میں شامل دیگر دو سیاہ فام کھلاڑیوں جیڈن سانچو او بوکایو ساکا کو بھی نسلی تعصب کا نشانہ بنایا گیا جنہوں نے میچ میں سپاٹ ککس ضائع کی تھیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد تو ایسا ہونا ہی تھا۔
پاویل کہتے ہیں: ’اگر ایک سفید فام کھلاڑی پینالٹی مس کردے تو لوگ کہیں گے کہ آج ان کا برا دن تھا لیکن اگر ایسا سیاہ فام کھلاڑی کرے تو کہا جاتا ہے وہ اس ملک سے تعلق نہیں رکھتا۔‘
پھر پیر کی صبح آگئی۔ صبح سویرے سوشل میڈیا پر یہ رپورٹس ظاہر ہونا شروع ہوگئیں کہ ایک خاتون دل کی شکل کے متعدد کارڈز لے کر یادگاری دیوار پر پہنچیں اور انہوں نے نسلی تعصب پر مبنی جملوں کو اس سے ڈھانپنا شروع کردیا۔ انہوں نے کارڈز پر رشفورڈ کی حمایت میں پیغامات لکھے۔ ان کے اس عمل سے متاثر ہوکر دیگر لوگ بھی آنا شروع ہوگئے اور ایسا ہی کرنے لگے۔
منگل تک لوگوں کے آنے کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ مانچسٹر سٹی کونسل کو سڑک بند کرنی پڑی۔ کچھ لوگوں نے لاؤڈ سپیکر نکال لیے اور M People کے گانے بجانا شروع کردیے۔ ہینڈ جیل باہر نکال لیے گئے۔ دوپہر تک وہاں کا ماحول ایک سٹریٹ پارٹی کا سا بن گیا تھا، جس کے بعد ایک گھٹنے پر بیٹھ کر احتجاج کرنے کا منصوبہ تھا۔
ودنگٹن والز سٹریٹ آرٹ پروجیکٹ کے بانی رضا کار ایڈ ویلارڈ کہتے ہیں کہ ’میرا یہ خیال ہے کہ یہاں لوگوں کو ذہنی دباؤ ختم ہونے کا احساس ہو رہا ہے، یہ ہمدردی ظاہر کرنے اور اقلیت کو یہ بتانے کا طریقہ ہے کہ وہ صرف ایک اقلیت ہیں، ہم نہایت متنوع کمیونٹی ہیں اور یہ کمیونٹی کہنا چاہتی ہے کہ یہ گرافٹی جو تاثر دے رہی ہے وہ ہم نہیں۔‘
یہاں لوگ رشفورڈ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں، پینالٹی سے پہلے بھی اور بعد میں بھی، اس میں کوئی شک نہیں۔
ایک تو لوگ ان سے ان کے کھیل کی وجہ سے محبت کرتے ہیں، ظاہر ہے، انہوں نے گذشتہ سیزن میں مانچسٹر یونائیٹڈ کے لیے 20 سے زائد گولز کیے تھے۔ دوسرا جو کچھ انہوں نے فیلڈ سے باہر کیا ہے اسے بھی سراہا جاتا ہے۔ ایک ایسے علاقے میں جہاں محرومی کا احساس کافی زیادہ پایا جاتا ہے، ان کی خوراک کی کمی سے متعلق چلائی جانے والی مہم، خاص طور پر جس کی وجہ سے گذشتہ برس حکومت نے مجبور ہوکر سکولز میں مفت کھانے کی فراہمی کے معاملے میں یو ٹرن لیا، انہیں کھیل کے علاوہ بھی ایک سٹار بناتی ہے۔ لوگ رشفورڈ سے پیار کرتے ہیں کیوں کہ وہ ایک نوجوان کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھتے ہیں۔
43 سالہ سول انجینیئر ویلارڈ کہتے ہیں کہ ’وہ ایک مہذب انسان ہیں، ان میں عاجزی، ایمانداری ہے اور وہ حقیقت پسند ہیں، انہوں نے خود کو ہمیشہ غیر جانبدار رکھا، کسی سیاست دان کے حامی یا مخالف نہیں بنے، وہ صرف مسائل کے حل کے لیے کوششیں کرتے رہے۔ انگلینڈ کی پوری ٹیم ہی نوجوانوں کا عمدہ مجموعہ ہے، وہ اپنا پورا میچ ڈے بونس این ایچ ایس چیریٹی میں دے رہے ہیں۔ آپ اسے جھٹلا نہیں سکتے۔‘
کافی ہاؤس کیفے، جس کی دیوار پر تصویر بنی ہے، کے مالک پیٹ ڈوہرٹی ویلارڈ سے اتفاق کرتے ہیں، تاہم ان کا نظریہ تھوڑا مختلف ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’جب میں چھوٹا تھا تو فٹ بال میں ہمارے رول ماڈل گازا تھے جو ہر رات ہنگامہ کرتے تھے یا پھر وین رونی جن کے جنسی سکینڈلز نانی کی عمر کی خواتین کے ساتھ سامنے آتے تھے، ان کے مقابلے میں ہمارے پاس مارکس ہیں جو بچوں کو کھانا کھلاتے ہیں، کیا وہ ہیرو نہیں ہیں؟‘
ڈوہرٹی خود بھی مانچسٹر سٹی کے مداح ہیں لیکن کیا انہیں کیفے کی بیرونی دیوار پر یونائیٹڈ کے کسی کھلاڑی کی بڑی تصویر بنوانے کی ضرورت تھی؟
اس حوالے سے وہ کہتے ہیں: ’فٹ بال فٹ بال ہے، آپ کسی بھی قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، رشفورڈ مانچسٹر ہے اور اس کے پاس کلاس ہے۔‘
یونس عالم بھی ایسا ہی کچھ سمجھتے ہیں، 29 سالہ یونس آن لائن اپرینٹس ٹیچر ہیں جو اس دیوار سے پانچ منٹ کی مسافت پر رہتے ہیں اور رشفورڈ کے بڑے بھائی ڈین کے ساتھ سکول جاتے ہیں۔ جب انہوں نے لوگوں کو اس دیوار پر آکر خراج تحسین پیش کرتے دیکھا تو محسوس کیا کہ ان کی آواز بھی اس میں شامل ہونا ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ برس سے رشفورڈ فوڈ بینک اور دیگر طریقوں سے اس کمیونٹی سمیت ملک بھر میں لوگوں کی مدد کررہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اب ہمارا انہیں سپورٹ کرنے کا وقت ہے، وہ ویتھنگٹن کے ہیں، میری طرح مانچسٹر میں پیدا اور پلے بڑھے، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے ان پر فخر ہے، سب کو ہے، جن لوگوں نے تصویر کو آلودہ کیا وہ ہم میں سے کسی کی نمائندگی نہیں کرتے۔‘
یونس نے رشفورڈ کے بارے میں اپنے جذبات کے اظہار کے لیے باسکٹ بال لیجنڈ کوبے برائنٹ کا جملہ استعمال کیا: ’سب سے اہم چیز کوشش کرنا اور لوگوں کو متاثر کرنا ہے تاکہ وہ جو کچھ بھی کریں اس میں کمال حاصل کریں۔‘
یونس نے مزید کہا: ’ان کے سامنے ابھی پورا کیریئر پڑا ہے، وہ جو چاہیں حاصل کر سکتے ہیں، لیکن جو کچھ وہ ابھی کر رہے ہیں وہ پہلے ہی بہت کچھ حاصل کرچکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس دیوار کو اب ہمیشہ اسی لمحے کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔‘
یہ بات درست ہوسکتی ہے کیوں کہ اس حوالے سے پہلے ہی گفت و شنید ہو رہی ہے کہ اس دیوار پر رکھے جانے والے پیغامات کا بڑا حصہ مانچسٹر میں نیشنل فٹ بال میوزیم کی زینت بنایا جائے گا۔ رشفورڈ خود بھی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ لوگوں کے یہ پیغامات ان کے لیے کتنے اہم ہیں۔
پیر کو جاری ایک بیان میں رشفورڈ نے کہا: ’ان کمیونٹیز جنہوں نے ہمیشہ مجھے اپنی بانہوں میں رکھا اب بھی میرے ساتھ ہیں۔‘
37 سالہ لنزے آئیر کہتی ہیں کہ پیغامات کو مستقل طور پر لگے رہنے دینا اچھا ہوگا۔ وہ اپنی 10 سالہ بیٹی مارتھا کو ڈیڈسبری میں واقع گھر سے یہاں لائی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’میں انہیں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کمزور مت پڑیں، منفی جذبات کو اپنے اندر داخل مت ہونے دیں کیوں کہ بہت سے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔‘
اس کے بعد پھر پاویل سے ملاقات ہوئی جو اپنے دونوں بچوں کے ساتھ واپس برمنگھم جانے کی تیاری کررہے تھے اور انہیں یہاں آنے پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتے ہیں: ’میں امید کرتا ہوں کہ یہ محض دکھاوا نہیں ہو، آج لوگ یہاں ہیں کل نہ ہوں اور کوئی ایکشن نہ لیا جائے۔ ایکشن سے میری مراد یہ ہے کہ جو لوگ اظہار یکجہتی کے لیے آئے وہ اپنے نسل پرست دادا دادی یا نانا نانی سے بات کریں جو ماضی میں ایسی رائے رکھتے تھے جو ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں یا دفاتر میں یہ بات اٹھائیں کہ سینیئر لیڈرشپ میں سیاہ فام شامل نہیں یا سکولز اور ہیلتھ سسٹم میں نسلی تعصب پر بات کریں۔ صرف کسی یادگاری دیوار پر آنا کافی نہیں آپ کو تبدیلی لانے کی خواہش اور کوشش کرنی ہوگی۔‘
© The Independent