افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا تقریباً مکمل ہو چکا ہے، دہشت گردی کے واقعات میں بظاہر معمولی اضافے کے ساتھ ہی پاکستان کی داخلی سلامتی پر اس کے مضمرات واضح ہو رہے ہیں۔
ظاہر ہے افغانستان میں طالبان کی فتح کی داستان پاکستان مخالف عسکریت پسند گروپوں خصوصاً کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے تقویت اور حوصلے کا سبب ثابت ہوگی۔
افغانستان کی غیریقینی صورت حال میں ٹی ٹی پی اور اس کے مختلف دھڑے نہ صرف وہاں ہونے والی پیش رفت سے طاقت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے بلکہ وہ پاکستان میں بھی اپنے نیٹ ورک کو پھیلانے اور حملوں میں شدت لا کر نیا محاذ کھولنا چاہیں گے۔
ٹی ٹی پی پہلے ہی اپنے پرانے مضبوط گڑھ یعنی سابق قبائلی علاقوں، جو اب صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکے ہیں، اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں بظاہر دوبارہ منظم ہو رہی ہے۔ اس تنظیم کے حملوں میں حالیہ دنوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ اگست 2020 میں مختلف دھڑوں کے انضمام کے بعد سے اس نے پاکستان میں اپنی کارروائیاں بتدریج بڑھائی ہیں۔
دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول، پشاور حملے کے بعد سے پاکستان عسکریت پسندی کے خلاف اپنی لڑائی میں بہت آگے بڑھ چکا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف اس کی یہ کامیابیاں بقول حکومت 70 ہزار سے زیادہ قیمتی جانوں اور مجموعی طور پر 123 ارب ڈالرز کے معاشی نقصان کی قربانی دینے کے بعد حاصل ہوئیں۔
تاہم اگر افغانستان کی تبدیل ہوتی جیو پولیٹیکل صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے انسداد دہشت گردی اور انسداد انتہا پسندی کے موجودہ فریم ورک پر نظر ثانی نہ کی گئی تو پاکستان کی یہ کامیابیاں ماند پڑ سکتی ہیں۔
سرینہ ہوٹل کوئٹہ، لاہور کے جوہر ٹاؤن اور خیبر پختونخوا کے ضلع اپر کوہستان میں چینی کارکنوں کی بس کو نشانہ بنائے جانے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے پاکستان کی داخلی سکیورٹی اور دہشت گردی کے خلاف فریم ورک میں موجود کمزوریوں کو عیاں کر دیا ہے۔
تینوں حملوں میں وہیکلر بورن امپرووائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائسز (VBIEDs) استعمال کیے گئے۔ یہ حملے ایک حکمت عملی کے تحت منصوبہ بندی کے ساتھ کیے گئے تھے جن میں ہائی ویلیو ٹارٖگٹس کو نشانہ بنایا گیا۔
اگرچہ جوہر ٹاؤن اور داسو ڈیم پر ہونے والے بم دھماکوں کی کسی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن ٹی ٹی پی نے سرینہ ہوٹل کوئٹہ پر حملے کا جزوی دعویٰ کیا تھا۔
پاکستانی طالبان کا حملے کی مکمل ذمہ داری لینے سے گریز کرنے کا مقصد شاید پاکستانی فوج کے شدید ردعمل کا خوف تھا کیوں کہ حملے کے وقت اس ہوٹل میں چین کے سفیر ٹھہرے ہوئے تھے جو پاکستان کے لیے انتہائی حساس معاملہ تھا۔
پاکستان میں چھ سال کے وقفے کے بعد ہائی پروفائل حملوں میں VBIEDs کی واپسی کا سلسلہ تشویش کا باعث ہے۔ خود کش بمباروں کی طرح یہ تکنیک بھی دہشت گرد گروہوں کا اہم ہتھیار ہے۔
یہ تکنیک ان دہشت گرد گروپوں کی جدید ترین عملی صلاحیتوں کا ایک نمونہ ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کے تناظر میں VBIEDs کی تیاری سستی اور آسان نہیں کیوں کہ انہیں بنانے کے لیے دھماکہ خیز مواد کے ماہرین، آٹوموبائل میکینکس اور لاجسٹک ماہرین کا کردار اہم ہے جو تیاری کے بعد انہیں حملے والے مقامات تک پہنچانے کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس سے تین نتائج واضح ہو جاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ دہشت گردوں نے پاکستان میں نئے نیٹ ورکس تشکیل دیے ہیں(پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے سربراہ 18جولائی 2021 کو ایک نجی ٹی وی چینل کو بتا چکے ہیں کہ دہشت گردوں کے سلیپر سیل فعال ہوئے ہیں)، دوسرا انہیں خوب مالی اعانت فراہم کی جارہی ہے اور تیسرا یہ کہ ان کے پاس افغانستان میں ایسے تربیتی مراکز موجود ہیں جہاں انہیں ایسی مہارتیں سکھائی اور فراہم کی جا رہی ہیں۔
اسی سے منسلک ایک رجحان، جس پر پاکستان کے متعلقہ سکیورٹی اداروں کو توجہ دینی چاہیے وہ افغانستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں اور باغی گروپوں کی جانب سے بارود سے بھرے ڈرونز کا استعمال ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے 2020 میں افغانستان میں 12 ڈرون حملے کیے۔ حال ہی میں طالبان نے ڈرون طیارے استعمال کرتے ہوئے افغانستان کے شمالی اور مغربی حصوں کے متعدد اضلاع پر قبضہ کیا ہے۔
یہ ایسی تشویش ہے جس پر پاکستانی سکیورٹی اداروں کو قریب سے نگرانی اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اگر افغانستان خانہ جنگی کی طرف بڑھ جاتا ہے تو ملک میں اور اس کی سرحدوں سے باہر کام کرنے والے دہشت گرد نیٹ ورک ان نئی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے فائدے کے لیے زیادہ سے زیادہ تباہی مچا سکتے ہیں۔
تجارتی سطح پر دستیاب ڈرون سستے ہیں اور ان کو دہشت گرد حملے کے لیے باآسانی تیار کیا جا سکتا ہے۔ داعش نے اپنے مخالفین کے خلاف عراق اور شام میں ڈرون سے بھرے بموں کا استعمال کیا ہے۔
سوشل میڈیا کی طرح پاکستانی دہشت گرد گروہوں کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال خارج از امکان نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں بدامنی ناگزیر ہے لیکن پاکستان میں حالیہ حملوں سے انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں اور انٹیلی جنس میں آپریشنل خامیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
2014 میں اے پی ایس حملے کے بعد شدت پسندی اور دہشت گردی کے دوہرے خطرات سے لڑنے کے لیے قائم ہونے والا قومی اتفاق رائے کچھ حد تک ختم ہوگیا ہے۔
اسی طرح نیشنل ایکشن پلان (نیپ) اور انسداد دہشت گردی کا 20 نکاتی روڈ میپ، جس کو جوش و جذبے کے ساتھ نافذ کیا جا رہا تھا، وہ بھی منظر نامے سے غائب ہوگیا ہے۔
2015 میں شناخت کیے گئے 20 عملی اقدامات پر موجودہ سکیورٹی ماحول اور خطے میں ہونے والی پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوئے نیپ میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر کراچی آپریشن مکمل ہو چکا ہے اور پاکستان میں غیرقانونی سم کارڈ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ان نکات کو ہٹایا کر نئے شامل کرنا چاہیے۔ اسی طرح انسداد دہشت گردی کی مالی اعانت روکنے، مدرسوں میں اصلاحات اور افغان پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات جیسے دیگر نکات کو برقرار رکھنا چاہیے۔
پہلی قومی داخلی سلامتی پالیسی (NISP 2014-2018) کے گزرنے کے بعد ایک نیا پالیسی فریم ورک (NISP 2019-2023) تیار کیا گیا تھا جو تاحال غیر فعال ہے۔
نیپ(نیشنل ایکشن پلان) اور دوسری قومی داخلی سلامتی پالیسی دونوں کو موجودہ سیاسی پشت پناہی اور موجودہ سیاسی نظام کے تحت چلانے ضرورت ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت داخلی سلامتی کی پالیسی تیار کرنے کے لیے دونوں دستاویزات کو ضم کر سکتی ہے۔ جون میں نیشنل انٹیلیجنس کوآرڈینیشن کمیٹی کی تشکیل ایک خوش آئند اقدام ہے۔
اگرچہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی متاثر کن تھی لیکن یہ ناپائیدار ہے اور اس کو الٹا بھی جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے 2015 اور 2020 کے درمیان سالوں کو پُرامن دور کی بجائے کم تشدد والا دور بیان کیا جا سکتا ہے۔
شاید تشدد میں کمی کو امن کا قیام سمجھ لیا گیا جس کے نتیجے میں غفلت اور لاپرواہی نے سر اٹھا لیا۔
مثال کے طور پر ’پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ جیت چکا ہے‘، ’شکار سے فاتح تک‘، ’دہشت گردی سے لے کر سیاحت تک‘ جیسے جملے مطمئن ذہنیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی طویل المدتی خطرات ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ادارہ جاتی منصوبہ بندی اور سٹرکچرل ردعمل کی ضرورت ہے۔
اگرچہ ریاستیں دہشت گردی کے دکھائی دینے والے خطرات کا جواب دیتی ہیں لیکن غیر محسوس طریقے سے سرائیت کرنے والی انتہا پسندی کے خطرے پر قابو پانے کے لیے ریاست اور معاشرے دونوں کو ایک مکمل طرز عمل کی ضرورت ہے۔
نوٹ: کالم نگار اور محقق عبدالباسط خان کی یہ تحریر اس سے قبل عرب نیوز پر شائع ہوچکی ہے۔ مصنف ایس راجرتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں ریسرچ فیلو ہیں۔