نہ جانے کیا ماجرا ہے۔ جو کام کرتے ہیں وہ الٹا ہو جاتا ہے۔ نیکی گلے پڑ جاتی ہے۔ گنگا الٹی بہنے لگ جاتی ہے۔ حالات کا جبر ہے؟ یا حوادث کا ثمر؟ تجربے کی نحوست ہے یا اوچھے پن کی قیمت؟ سمجھ سے بالا ہے۔
اتنی محنت سے عمران خان کو وزیر اعظم بنایا۔ عوام کی ذہنی تربیت کے لیے 100کے قریب چینلوں اور ان کے درجنوں مالکان کو بروئے کار لایا گیا۔ عدالتی نظام نے بھی بہترین معاونت کی اور ہر قریے ہر کوچے میں سے سیاست دانوں کا ریوڑ اکٹھا کر کے ایک زبردست حکومت نیک ہاتھوں سے تشکیل دی۔
یہ سب کاوش اب غارت ہوتی ہوئی نظرآ رہی ہے۔ توقعات کا محل بھوت بنگلہ بن گیا ہے۔ خوشیوں کے بھنگڑے بدروحوں کے ناچ میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ایک کل بھی سیدھی نہیں ہو پائی۔
سوچا تھا عمران خان کو مقبول وزیر اعظم بنانے کے بعد ڈالر چھن چھن برسیں گے۔ قوم کا غربت سے چھلنی دامن ریشمی دھاگوں سے سیا جائے گا۔ مگر کیا قسمت ہے ماتھا رگڑنے کے بعد بھی آئی ایم ایف گردن پر سوار ہے۔ چھ ارب ڈالرز کی کیا حقیقت ہے؟ مگر سب کچھ گروی مانگ رہے ہیں۔ اچھی بھلی ریاست کو پھکڑ فدوی میں تبدیل کر دیا ہے۔ سٹیٹ بینک کا نیا گورنر وزیر اعظم کو خاطر میں نہیں لاتا اور اپنی من مانی کرتا ہے۔ ہم کہتے ہیں ڈالر 144 پہ رکھو وہ کہتا ہے مشورہ اپنے پاس رکھو۔ ڈالر تو اب کٹی پتنگ ہے مارکیٹ کی ہوا جدھر بھی لے جائے۔
مقامی کرنسی والے بھی بات نہیں سنتے۔ کمبختوں کی لاکھ منتیں کیں مگر پھر بھی کاروبار سے باز نہیں آئے۔ روپے کی گور پر ذاتی تجوری بنا لی۔ اب بیرونی قرضے ملک کی تاریخ میں بلند ترین سطح پر ہیں۔ جو دوائی دس کی تھی اب سو روپے کی مل رہی ہے۔ جو بندوق ایک لاکھ میں آنی تھی اب دو لاکھ روپے کی پڑ رہی ہے۔ لوگوں کی قوت خرید ختم ہونے کے قریب ہے۔ جس کے پاس پیسہ ہے وہ سونا خرید رہا ہے اور جو کبھی چھ گھنٹے آرام سے سوتا تھا اب راتوں کو اٹھ اٹھ کر بددعائیں دیتا ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں نے بھی بڑا دھوکہ کیا۔ نہ ڈیم بنانے میں مدد کی نہ پاکستان بناؤ بانڈ خریدے۔ نہ بینکوں کے ذریعے تھوک کے حساب سرمایہ واپس منتقل کیا۔ بس جھنڈے کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے، نعرے لگاتے رہے۔ صرف بیرونی دوروں کے دوران اچھے کھانے کھلانے اور پچھلی حکومتوں کو گالیاں نکال کر وقتی تسلی کا بندوبست ہی کر پائے۔
وزیر اعظم کے یوٹرن بھی کام نہیں آ رہے۔ کالے دھن کو سفید کرنے کے خلاف جہاد کرنے کے بعد اب وہی کام خود سے کر رہے ہیں۔ دیکھیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ اگر پچھلے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو پرامید ہونا حماقت ہو گی۔ خدشہ یہ ہے کہ اس سکیم کا بھی وہی انجام ہو گا جو ابھی تک مشتہر درجنوں دوسرے منصوبوں کا ہوا ہے۔ سادگی اور کفایت شعاری کے لیے وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنا تھا۔ اب ایک کی جگہ تین وزیر اعظم ہاؤس ہیں۔ ایک بنی گالہ میں، دوسرا پرانے ملٹری سیکریٹری کی رہائش گاہ میں اور تیسرا وہ وزیر اعظم ہاؤس جو پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔ ویسے بھی وزیر اعظم ہاؤس کو تحقیقاتی درس گاہ میں بدلنے پر بھی چار سو ارب لگیں گے۔ لہٰذا فی الحال ایک وزیر اعظم کے لیے تین گھر ہی منافع کا سودا ہے۔
خیال یہ بھی تھا کہ شاہد 50 لاکھ مکانات میں سے کچھ لاکھ بن جائیں گے۔ ابھی تک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی اور پہلا سال ختم ہونے کو ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں تو دور کی بات لاکھوں نوکریاں ختم ہونے کے عمل کو روکنا ہی مصیبت بن گیا ہے۔ پنجاب میں عثمان بزدار گاڑی میں اپنی ویڈیو بنوا کر خوش ہیں، اور کے پی کی حکومت ’پی کے سو جا‘ والی کیفیت میں ہے۔ دشمنوں نے بلوچستان میں دہشت گردی پھیلانے کا منصوبہ دوبارہ سے زندہ کر دیا ہے۔ وزیر خارجہ یا تو موٹر سائیکلوں پر گھومتے ہیں اور یا سرائیکی صوبے کا ڈھول پیٹ کر اپنی سیاست بچا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا عنوان لکھنا ہی مشکل لگتا ہے اور وزیر دفاع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اور تو اور شیخ رشید بھی خاموش ہو گئے ہیں۔ ہمارے فیض نے جس امید سحر کا ذکر کیا تھا یہ وہ تو نہیں۔ وہ نئی سوچ، وہ جھلمل کرتے خواب۔ مخملی داستان ترقی۔ وہ دل کو گدگدانے والے عظمت کے وعدے۔ کہاں گئے؟ یہ کون سا دقیق فلسفہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی پاداش میں آج ہم یہاں پر کھڑے ہیں۔ دشمنوں میں گھرے ہوئے، شہادتوں کے باوجود الزامات کے کٹہرے میں۔ قرضوں کا بوجھ سر پر اور پاؤں نہ ختم ہونے والے اندرونی جھگڑوں میں پڑے ہوئے۔ یہاں 22 کروڑ لوگ بستے ہیں۔ یہ ملک ایک جوہری طاقت ہے۔ اس ملک نے جدید تاریخ کو بنانے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ 1992 کا ورلڈ کپ جیتا ہے۔ ایسا کیوں ہے یہاں پر اچھی نیت سے کیے ہوئے نیک کام ایسے خوفناک نتائج پیدا کر دیتے ہیں جن کا سامنا ہم اس وقت کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کچھ ایسے ہی چھوڑ دیں اور ملک حالات کے رحم و کرم پر ہچکولے کھاتا رہے۔ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہو گا۔ کچھ لوگ فضول مشورے دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں قومی یکجہتی کے لیے بڑا سیاسی مکالمہ کریں۔ تمام سیاسی قوتوں کو ایک میز پر بیٹھائیں۔ اگلے 20 سال کے بنیادی قومی اہداف طے کریں۔ احتساب کی فضول بک بک کو بند کر کے حقیقی جرائم سے چشم پوشی کیے بغیر قومی مفاہمت کی راہ نکالیں۔ فوج کو دفاع پر مامور رہنے دیں اور عوام کے حقیقی نمائندگان کو حکومتیں چلانے دیں۔
اس مشورے سے حالات سدھر تو سکتے ہیں لیکن یہ قابل عمل نہیں۔ عمران خان کا کیا کریں گے؟ اب یہ شرعی شادی تو ہے نہیں کہ جب دل آیا کر لی اور جب دل بھر گیا چھوڑ دی۔ سیاسی شادیاں طویل المدت ہوتی ہیں۔ دہائیوں چلتی ہیں۔ نواز شریف اور پیپلز پارٹی تو پہلے سے ہی گھر سے نکال دی گئی ہیں۔ اب تیسری کو بھی نکال دیں گے تو یہ جنجال گلے پڑ جائے گا۔ کیوں نہ نظام کو ہی بدل دیا جائے۔ صدارتی نظام حکومت پارلیمانی نظاموں کی آلائشوں سے پاک ہے۔ نہ سیاسی جوڑ توڑ کی ضرورت ہے اور نہ مخلوط حکومت کا ڈر۔
اب بال کی کھال اتارنے والے غیر ضروری تاریخی حوالے نہ دیں۔ نہ بتائیں کہ ایوب خان، یحیی خان، وقتی طور پر ذوالفقار علی بھٹو، ضیا الحق، آٹھویں ترمیم والے غلام اسحاق خان اور کمر درد والے جنرل پرویز مشرف صدارتی نظام کی ناکامیوں کی مثالیں ہیں۔ تاریخ کی ویسے بھی کیا اہمیت ہے۔ سفید صفحوں پر کالے الفاظ ہی تو ہیں، کچھ بھی لکھ دیں اور اگر لکھا پسند نہ آئے تو پھاڑ کر بھاڑ میں جھونک دیں۔ یہ وقت بےمغز بحث کا نہیں، عملی کاموں کا ہے۔
پہلے ملک بچانے کے لیے عمران خان کو لانا تھا اب عمران خان کے آنے کے بعد ملک کو مزید بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہو گا۔ کیا خیال ہے؟ ہو جائے ایک اور تجربہ؟
مزید پڑھیے: موروثی سیاست: تصویر کا دوسرا رخ
مزید پڑھیے: احترام رمضان اور سٹیج کی اداکارائیں