پاکستانی ویٹ لفٹر طلحہ طالب ویٹ لفٹنگ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے ٹوکیو پہنچ چکے ہیں اور وہ 25 جولائی کو 67 کلو گرام کی کیٹیگری میں پہلے مقابلے میں حصہ لیں گے۔
’میں نے 2011 میں 11 برس کی عمر میں لاہور میں ہونے والی انڈر 14 نیشنل چیمپئن شپ میں حصہ لیا۔ اس مقابلے میں میں نے 44 کلو گرام وزن اٹھایا۔ میں 40 کلو باڈی ویٹ کی کیٹیگری میں شامل ہوا تھا لیکن جب وہاں میرا وزن کیا گیا تو وہ 31 کلو تھا جس پر میرے مقابلے میں شامل دیگر ویٹ لفٹرز ہنسنے لگے۔ یہ میرا پہلا مقابلہ تھا۔ اللہ کا شکر ہے میں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا اور سونے کاتمغہ حاصل کیا۔‘ یہ واقعہ سنانے والے طلحہ طالب ہیں جو ٹوکیو اولمپکس میں ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں پہلی بارحصہ لینے والے ہیں۔
ویٹ لفٹنگ کب شروع کی؟
طلحہ طالب کا تعلق پنجاب کے شہر گجرانوالہ سے ہے۔ 21 سالہ ویٹ لفٹر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے ویٹ لفٹنگ کا آغاز 11 سال کی عمر میں کیا۔ ’میرے والد بھی ویٹ لفٹرتھے۔ جب بھی وہ تربیت کے لیے جاتے مجھے بھی ساتھ لے کر جاتے۔ ٹریننگ کے دوران میں اپنے والد اور دیگر کھلاڑیوں کو ویٹ لفٹنگ کی تربیت حاصل کرتے دیکھتا تھا اور اس طرح آہستہ آہستہ مجھے بھی شوق پیدا ہو گیا۔ پھر میرے والد نے مجھے باقاعدہ ویٹ لفٹنگ شروع کروا دی۔‘
طلحہ نے بتایا کہ انہوں نے بہت سے قومی و بین القوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔
اب تک کیا کچھ جیتا؟
طلحہ طالب نے بتایا کہ انہوں نے 2015 میں کامن ویلتھ یوتھ گیمز میں حصہ لیا۔ ’وہ میرا بین الاقوامی سطح پر پہلا مقابلہ تھا۔ کافی دباؤ تھا مجھ پر کہ پہلا بین الاقوامی مقابلہ ہے یہاں میں کس طرح اپنے ملک کی نمائندگی کروں گا اسی دباؤ کے ساتھ میں نے کامن ویلتھ یوتھ گیمز میں ریکارڈ بھی قائم کیا اور پہلا بین الاقوامی تمغہ بھی جیتا جو چاندی کا تھا۔‘
اس کے علاوہ طلحہ نے بتایا کہ وہ 2017 سے 2020 تک لگاتار چار مرتبہ نیشنل چیمپئن اور ریکارڈ ہولڈر رہے۔ 2015 میں کامن ویلتھ یوتھ گیمز میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا جبکہ 2016 میں انہیں سال کا بہترین ویٹ لفٹر قرار دیا گیا۔ طلحہ طالب نے 2016 میں ہی ایشین یوتھ سلور میڈل حاصل کیا۔ 2017 میں کامن ویلتھ جونیئر چیمپئن شپ کھیلی جبکہ یہ 2017 میں کامن ویلتھ سلور میڈلسٹ بھی تھے۔ 2018 میں طلحہ نے کامن ویلتھ گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا اور یہ ریکارڈ ہولڈر بھی تھے۔
2019 میں انہیں ساؤتھ ایشیا کا بہترین ویٹ لفٹر قرار دیا گیا۔ اسی سال انہوں نے ساؤتھ ایشین گیمز میں سونے کا تمغہ بھی حاصل کیا۔ اس کے علاوہ 2020 میں ٹرپل چھٹی انٹرنیشنل سولیڈیریٹی چیمپئن شپ میں تین سونے کے تمغے حال کیے۔ 2019 اور 2020 میں طلحہ کامن ویلتھ گیمز کے 67 کلو کی کیٹیگری میں بہترین کھلاڑی بھی قرار پائے۔ طلحہ 2020 میں تاشقند میں ایشیائی برانز میڈلسٹ بھی رہ چکے ہیں۔
دن کے کتنے گھنٹے ٹریننگ کرتے ہیں؟
طلحہ نے بتایا کہ وہ ویٹ لفٹنک کی ٹریننگ پورے دن میں چھ گھنٹے کرتے ہیں۔ ان کی تربیت تہجد کی نماز سے فجر کی نماز تک جبکہ شام کے وقت تربیت کا آغاز عصر کی نمازکے بعد شروع ہو کر عشاء کی نماز کے وقت اختتام پذیرہوتا ہے۔ طلحہ نے بتایا کہ ان تربیتی مشقوں میں ویٹ لفٹنگ کی مختلف مشقیں ہوتی ہیں۔ خاص طور پر شام کے وقت وہ صرف ویٹ لفٹنگ کی مشقیں ہی کرتے ہیں۔
صبح کے وقت وہ اپنی فٹنس ٹریننگ پر زور دیتے ہہں جس میں رننگ، جمپنگ، پش اپس وغیرہ شامل ہیں۔
پانچ فٹ نو انچ قد کے حامل طلحہ اس وقت 67 کلو کی کیٹیگری میں ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔
اولمپکس تک رسائی کیسے ہوئی؟
طلحہ نے بتایا: ’پہلے تو اولمپکس میں حصہ لینے کے لیے آپ کی کارکردگی کو چیک کرنے کے لیے ایک دو مقابلوں کے نتائج دیکھے جاتے تھے لیکن 2018 میں اولمپکس کے لیے نیا کوالیفکیشن سسٹم متعارف کروایا گیا۔
جس میں انٹرنیشنل ویٹ لفٹنگ ایسو سی ایشن (IWF) اور انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی (IOC) نے فیصلہ کیا کہ کھلاڑی کو کم از کم چھ کوالیفکیشن راؤنڈز کھیلنے پڑیں گے اور سب میں اچھی کارکردگی دکھانی ہے۔
اس کے علاوہ ڈوپ ٹیسٹ کلئیر ہونا چاہیے ورنہ آپ مقابلے میں حصہ نہیں لے سکتے۔
’میں نے اپنے پہلے کوالیفکیشن راؤنڈ جو 2018 میں مصر میں ہوا، وہاں بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ اس کے بعد دوسرا راؤنڈ میں نے چین میں کھیلا، تیسرے راؤنڈ کے لیے مجھے چین سے شمالی کوریا جانا تھا لیکن میری فلائٹ مس ہو گئی جس کی وجہ سے میں وہاں پہنچ نہیں سکا، اس کے بعد ازبکستان میں ایک راؤنڈ کھیلا اس میں میں نے تین طلائی تمغے جیتے۔ اس کے بعد ازبکستان میں ہی ایک مقابلہ تھا جو کینسل ہو گیا اس لیے میں نے کوالیفکیشن راؤنڈ کے چار مقابلوں میں ہی حصہ لیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس کے بعد پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن (PWF) اور پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن (POA) نے ان چاروں مقابلوں میں میری کارکردگی کو دیکھتے ہوئے میرا نام انٹرنیشنل ویٹ لفٹنگ فیڈریشن IWF کو بھیجا، انہوں نے آگے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی IOC کو کہا اور انہوں نے میری کارکردگی زیر غور رکھتے ہوئے مجھے منتخب کر لیا۔‘
طلحہ نے بتایا کہ 45 برس پہلے 1976 میں ارشد ملک نے پہلی مرتبہ پاکستان سے ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں کے لیے اولمپکس میں حصہ لیا تھا۔ ارشد ملک جو اب حیات نہیں ہیں طلحہ کے کوچ بھی رہ چکے ہیں۔
اولمپکس مقابلوں میں جیتنے کی کتنی امید ہے؟
طلحہ طالب کا کہنا ہے: ’میری کیٹیگری 67 کلو کی ہے۔ میں وہاں کتنا وزن اٹھاؤں گا اس کا انحصار میری کارکردگی اور اس وقت وہاں کی صورتحال پر ہے کیونکہ ان مقابلوں میں ایک ایک کلو کے وزن کے فرق سے بھی کھلاڑی جیت جاتے ہیں۔ آپ کے مقابلے میں جو کھلاڑی ہے آپ نے اس سے زیادہ وزن اٹھا کر مقابلہ جیتنا ہوتا ہے۔ میں یہ تو یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں وہاں کتنا وزن اٹھا سکوں گا لیکن اس وقت تربیت کے دوران میں 175 کلو وزن اٹھا رہا ہوں۔‘
اولمپکس میں حصہ لینے سے ذہنی دباؤ کا شکار تو نہیں؟
طلحہ کا کہنا تھا کہ جب میں نے ایشیا کے مقابلوں میں حصہ لیا تو وہ سب یہی ویٹ لفٹر تھے جو اب ٹوکیو میں میرے ساتھ ہوں گے۔ ان سب کا اپنا ایک لیول ہے۔ ان کے ساتھ میں مقابلہ کر چکا ہوں اور مجھے اندازہ بھی ہے کہ وہ کس طرح کھیلتے ہیں۔ اس لیے میرے ذہن پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ نہ ہی میرے دل میں کوئی ڈر ہے۔ میں صرف اس وقت یہ سوچ رہا ہوں کہ صرف ایک ٹائٹل تبدیل ہوا ہے جس کا نام اولمپکس ہے۔ میں پہلے بھی بین الاقوامی مقابلوں میں وزن اٹھاتا رہا ہوں یہاں بھی وزن اٹھانا ہے اس لیے انشاء اللہ اچھا ہی ہوگا۔
اتنا وزن اٹھانے کے لیے کیا کچھ خاص خوراک بھی درکار ہے؟
اس سوال کے جواب میں طلحہ کا کہنا تھا کہ جو پروفیشنل ویٹ لفٹرز ہیں یا ایتھلیٹس ہیں ان کی خوراک ایک عام آدمی سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اب چونکہ میں نے مقابلے کے لیے جانا ہے تو میں باہر کے کھانے جنہیں جنک فوڈ کہا جاتا ہے، بالکل نہیں کھا رہا۔ میں کچھ سپلیمنٹس لیتا ہوں لیکن اس کے ساتھ بکرے کا گوشت، گائے کا گوشت اور پھل وغیرہ زیادہ سے زیادہ کھاتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو سپلیمنٹس لیے جاتے ہیں ان کی مقدار کا تعین آپکے جسم کے وزن کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ یعنی ایک کلو دو گرام کے حساب سے سپلیمنٹ لیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے والد محمد اسلام چونکہ میرے کوچ بھی ہیں اس لیے میرا ڈائٹ پلان بھی وہی بناتے ہیں۔
طلحہ طالب ویٹ لفٹرز کے لیے کیا چاہتے ہیں؟
’ویٹ لفٹنگ میں ہمارے پاس پاکستان میں جو سامان ہے وہ اچھے معیار کا نہیں ہے، یہ مقامی سطح پر بنتا ہے۔ گجرانوالہ میں ویٹ لفٹنگ کے شوقین بہت زیادہ ہیں۔ ہر جم میں 30 سے 40 ویٹ لفٹر موجود ہیں۔ کچھ لوگ آگے نہیں آتے۔ جن میں مختلف وجوہات ہیں کہ شاید ان کے مالی وسائل اتنے نہیں ہوتے کہ وہ ویٹ لفٹنگ کے آلات یا ڈائٹ وغیرہ کا خرچہ اٹھا سکیں۔ کبھی فیملی کا تعاون نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ ہمارا سامان بہت سستا ہو تا کہ ہر وہ شخص جو ویٹ لفٹنگ میں دلچسپی رکھتا ہے وہ آگے آسکے۔‘
طلحہ کا خیال ہے کہ ہر شہر میں جہاں ویٹ لفٹنگ کا رحجان ہے وہاں اکیڈمیز بننی چاہئیں بلکہ طلحہ نے بتایا کہ وہ اس حوالے سے کئی بار حکومت کو مشورہ دے چکے ہیں کہ کم از کم ویٹ لفٹنگ کی ایک اکیڈمی بنا دیں جہاں ہر کوئی آکر بغیر کوئی پیسہ خرچ کیے ٹریننگ کر سکے۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں پہلے ایک جم میں جایا کرتا تھا وہاں تنویر ملک میرے کوچ تھے۔ جب وہ اس دنیا سے چلے گئے تو میرے لیے وہاں بہت سے مسئلے مسائل کھڑے ہو گئے جس کی وجہ سے مجھے وہ جم چھوڑنا پڑا اور اس وقت میں ایک نجی سکول کے گراؤنڈ میں اپنی ٹریننگ کرتا ہوں۔‘
طلحہ بیٹے اچھے ہیں یا کھلاڑی؟
طلحہ کے والد محمد اسلام ناطق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’طلحہ اس وقت میرا بیٹا نہیں بلکہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کا بیٹا ہے۔ ہمارے دس ایتھلیٹس اولمپکس میں گئے ہیں وہ سب قوم کے بیٹے ہیں۔ پاکستانی قوم کو ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ میں گزشتہ تین برس سے طلحہ کا کوچ ہوں۔ کوچنگ دراصل ایک سیڑھی ہوتی ہے۔ ہم دونوں کے کوچ دراصل ملک نوید اسلم مرحوم شیراں والا باغ اسلامیہ سکول کے کوچ تھے جنہوں نے طلحہ کو ویٹ لفٹنگ سکھائی اور مجھے کوچنگ۔‘
انہوں نے کہا: ’اس کے بعد طلحہ مختلف کوچز کے ساتھ کام کرتا رہا۔ اوران سب نے اپنے طور پر اس میں بہتری لانے کی کوشش کی۔ جس کے بعد آج یہ اس مقام پر ہے۔ طلحہ ایک سمجھ دار ویٹ لفٹر ہیں۔ مجھے ان کے ساتھ کوئی بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی بس کچھ تھوڑی بہت ٹپس وغیرہ دیتا ہوں کہ دنیا بھر میں لوگ کیا کیا ٹیکنیکس استعمال کر رہے ہیں اور ہم ان کے مطابق ٹریننگ کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ہم نئی ٹیکنیکس کو اپنانے میں جھجھکتے ںہیں بلکہ انہیں آزماتے ہیں، اگر وہ اچھی لگیں تو انہیں آگے بھی استعمال کرتے ہیں نہ لگیں تو چھوڑ دیتے ہیں۔
طلحہ کے کوچ اور والد کا کہنا تھا کہ آخری مرتبہ ایشین چیمپئن شپ میں 30 سال بعد کسی ویٹ لفٹر نے کانسی کا تمغہ جیتا اور وہ طلحہ تھے۔ ان کی کارکردگی کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ جہاں تک اولمپکس کا تعلق ہے تو مقابوں میں کس کو فتح ملتی ہے اور کس کو شکست اس کا علم صرف خدا کی ذات کو ہے۔
’ہم خالصتا اپنے سبز ہلالی پرچم کے لیے محنت کرتے ہیں اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ مقابلہ کوئی سا بھی ہو ہمیں لڑنا ہے۔ باقی جو اللہ کی رضا۔‘