کابل صرف افغانستان کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ ملک میں رہنے والی تمام قومیتوں کا گڑھ بھی ہے۔ جب جب اطراف میں حالات خراب ہوتے ہیں کابل میں رہنے والے خودبخود محتاط ہو جاتے ہیں۔
امریکہ کے اچانک انخلا کی خبروں نے شہر کو متاثر کیا ہے اور عوامی سطح پہ تشویش بڑھنے لگی کہ کہیں طالبان کابل تک نہ پہنچ جائیں۔ ماضی میں شہرِ کابل پہ کیا کیا ستم نہیں ڈھائے گئے، جنگ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، کرونا اور اب لوگوں کا طالبان سے خوف دوبارہ دن بہ دن بڑھنے لگا ہے۔
اس خوف میں خواتین سب سے زیادہ مبتلا ہیں۔ طالبان نے اطراف میں جتنے بھی علاقوں پہ قبضہ کیا ہے ان پر وہی پرانے قانون نافذ کرنا شروع کر دیے ہیں۔ مردوں کو داڑھی اور خواتین کو برقع اوڑھنے کا عندیہ دے دیا۔ کابل کی خواتین کا مزاج اور مسائل اطراف کی خواتین سے یکسر مختلف ہیں۔
ایک تو گاؤں کی خواتین ویسے ہی گھر سے باہر نوکری نہیں کرتیں دوسرا ان پہ پردے کی پابندی ہمیشہ سے عائد رہی ہے لیکن کابل کی خواتین زیادہ تر اعلی تعلیم یافتہ، فیشن ایبل اور ورکنگ ویمن ہیں۔
طالبان دور میں یہی خواتین نقل مکانی پہ مجبور ہوئیں اور اب دوبارہ ہجرت کا سوچنا ان کے لیے ناممکن ہے۔ اس وقت زیادہ تر ورکنگ خواتین اپنے کنبے کی واحد خود کفیل ہیں۔ ایسے میں طالبان سے خوف ان کے لیے پریشان کن ہے۔
صدر اشرف غنی کی حکومت کے آتے ہی ملک میں پہلے جیسی خوش حالی بھی نہ رہی۔
کرزئی کے دور حکومت میں ایک تو روزگار کے ذرائع زیادہ تھے ناصرف مقامی بلکہ غیر ملکی بھی یہاں روزگار کی تلاش میں آیا کرتے تھے ۔ جن کی تنخواہیں ڈالرز میں ہوا کرتیں تھیں۔ اس دور میں بڑے بڑے مالز، شاپنگ سینٹرز اور شادی ہال بنے۔
لوگوں نے اپنا سرمایہ غیر ملکی بینکوں سے نکال کر اپنے ملک پہ لگانا شروع کیا۔ بےتحاشہ نجی ٹی وی چینلز اور ریڈیو سینٹرز کھولے گئے جن میں اب خواتین کی کافی تعداد کام کرتی ہے۔ کرزئی دور حکومت میں خواتین کے حقوق اور ویمن امپاورمنٹ کے حوالے سے کافی پیش رفت ہوئی۔
بےشمار خواتین نے اپنی این جی اوز کھولیں، اپنی برانڈز اور بوتیک کا کام شروع کیا۔ گلی گلی میں آرائش گاہیں کھل گئیں۔ اچار، جام، چٹنی بنانے اور ان کی فروخت کا کام شروع ہوا۔ خواتین قالین بافی، زعفران، ریشم اور صابن سازی کے چھوٹے چھوٹے کارخانوں کی مالک بھی بن گئیں اور خشک میوہ جات کے کاروبار سے بھی وابسطہ ہوئیں۔
اس دور میں بہت سی خواتین نے صحافتی میدان میں قدم رکھے اور سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بیرونی امداد اور ملکی سرپرستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین کا کھویا ہوا اعتماد لوٹ آیا۔ ان کی مالی حالت اچھی ہوئی وہ اچھا پہننے اور اچھا کھانے لگیں۔ خواتین نے اپنے ہوٹل اور ریستوران بھی کھولے۔
ایک این جی او میں کام کرنے والی خاتون فرناز نے مجھے بتایا کہ حامد کرزئی کے دور میں ’میں پاؤں زمین پہ مارتی اور ڈالرز نکلتے تھے اور اب میں دونوں ہاتھوں سے کنواں بھی کھود لوں تو دور دور تک پیسے کا نام و نشان تک نہیں۔‘
سپانسرز اور سرمایہ دار اس وقت کنارے کش ہوچکے ہیں۔ پچھلے تمام منصوبے ٹھپ ہوگئے جبکہ نئے کی منظوری نہیں مل رہی ہے۔ اسی طرح وزارت تجارت سے منسلک ایک خاتون کا جو اپنا ذاتی بوتیک بھی چلاتی ہیں کہنا تھا کہ کرونا کے بعد وہ معاشی مسائل کا شکار ہیں جبکہ سپانسرز اور ڈونرز بھی ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔
ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کا کہنا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے نتیجے کے انتظار میں ہیں۔ اس سے قبل وہ کوئی فنڈ ریزنگ پروگرام شروع نہیں کر سکتے۔
ملک کے امیر سرمایہ دار بھی اپنا پیسہ ایسی صورت حال میں کسی قسم کے کاروبار پہ نہ لگانا چاہتے اور نا ہی وہ کسی کی مالی مدد کو تیار ہیں۔ وہ بزنس ویمن جو کبھی ڈالرز میں کماتی تھیں اب قرض دار ہوچکی ہیں ۔
اس وقت خواتین میں بیروزگاری کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ اب خواتین میں مہنگے لباس پہننے کا رجحان بھی ختم ہو رہا ہے۔ گاہکوں کا کہنا ہے کہ وہ روٹی خریدیں یا کپڑا؟
کابل میں ایک اور مسئلہ مسلسل لوڈشیڈنگ کا بھی ہے جس کی وجہ سے درزی بند ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بجلی آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ جو دفاتر جنریٹر یا سولر سسٹم کی سکت نہیں رکھتے ان کا کام زیادہ متاثر ہوا ہے۔ بجلی مسلسل دس یا بارہ گھنٹے نہیں ہوتی اور جب آتی ہے تو دو چار گھنٹے بعد پھر چلی جاتی ہے۔
گیس 30 افغانی سے بڑھ کر 80 افغانی ہو چکی۔ ایسے میں لوگ کھائیں کیا اور پکائیں کیا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈالر کی قیمت خبروں کہ شہ سرخیوں کے ساتھ کبھی بڑھ جاتی ہے اور کبھی یکدم گھٹ جاتی ہے۔
سب کے کان امن کی خبر سننے کو بےتاب ہیں۔ اگر امن مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو سبھی سرمایہ دار اپنا پیسہ لگانے کے لیے ایک بار پھر تیار ہو جائیں گے۔
کابل میں غربت کی شرح روز بہ روز بڑھتے ہی بھکاریوں کی تعداد میں بھی بظاہر اضافہ ہوا ہے جن میں خواتین کی تعداد پہلے کی نسبت زیادہ ہے۔
ایک عمر رسیدہ خاتون بی بی حاجی نے بتایا کہ اگر طالبان آ گئے تو آج تندور کے سامنے روٹی مانگنے والی خواتین کی تعداد تین ہے تو تب 30 ہو جائے گی۔
ایسے میں افغانستان خاص کر کابل کی خواتین کے مسائل کے حل کے لیے نہ تو حکومت سرپرستی کر رہی ہے نہ ہی طالبان کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ان کا رویہ ماضی جیسا نہیں ہوگا۔
کہتے ہیں کہ خوف، موت کو نہیں ٹال سکتا مگر زندگی کو منجمد ضرور کر دیتا ہے۔ یہی جمود کابل کی بعض خواتین کو ڈپریشن کا شکار کر رہا ہے۔
نوٹ: ثروت نجیب کا تعلق کابل، افغانستان سے ہے۔ پیشے کے اعتبار سے گرافک ڈیزائنر اور جرنلسٹ ہیں۔ سارک ادبی شعبہ اور بین الاقوامی اماروتی پوئیٹک پریزم کی ممبر ہیں۔ معاشرتی، سیاسی، ملکی اور عالمی مسائل ان کے خاص موضوعات ہوتے ہیں۔ مادری زبان پشتو ہونے کے باوجود اردو ادب سے شغف رکھتی ہیں اور اردو میں نظم، غزلیں، افسانے، مضامین اور کالم بھی لکھتی ہیں۔