افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ ہم نے امن کی پیش کش کی تھی لیکن طالبان تلوار کے زور پر افغانستان پر مسلط ہونا چاہتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اپنی تقریر میں افغان صدر کا کہنا تھا کہ ’میں نے انتخابات کے انعقاد کے لیے امن کی پیش کش کی تھی اور میں اس پر قائم ہوں۔ تاہم، طالبان اور ان کے حامی اس کے برعکس ایک مسلسل جنگ میں مصروف ہیں اور تلوار کے زور پہ مسلط ہونے کے لیے پرعزم ہیں۔ جہادی اور بنیاد پرست گروہ، بین الاقوامی دہشت گرد مجرم تنظیموں سمیت مستقبل کے لیے اپنے طالبان اتحادیوں کی حمایت میں پوری طرح متحرک ہیں۔‘
اشرف غنی کا مزید کہنا تھا ’دائرہ کار اور وقت کے لحاظ سے ہمیں ایک ایسے حملے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو پچھلے 30 برس میں غیر معمولی ہے۔ یہ 20 ویں صدی کے طالبان نہیں جو الگ تھلگ مدرسوں سے آئے ہیں بلکہ یہ بین الاقوامی شدت پسند تنظیموں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہیں۔‘
اشرف غنی خصوصی مشترکہ کمیٹی برائے تعاون و ترقی (جے سی ایم بی) سے خطاب کر رہے تھے۔ اس کمیٹی میں افغان حکومت اور بین الاقوامی برادری کو شامل کیا گیا ہے جو افغانستان میں ترقی سمیت دیگر امور کو دیکھتا ہے۔
اشرف غنی نے عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کوئی سیاسی حل نکالنے پر طالبان اور ان کے حامیوں کی سنجیدگی کا جائزہ لیں۔ دو سالوں سے، عالمی برادری نے آمادہ بر تعاون طالبان کو دیکھا اور ہمارے فیصلوں پر سوال اٹھائے گئے۔ ان سے متعلق معاملات میں جو سبق ہم نے سیکھا۔ اس کی روشنی میں چلنے سے ہمیں روکا گیا۔ آج، مجھے لگتا ہے کہ عالمی برادری کے لیے اس صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے۔‘
افغان صدر کے مطابق ’ہماری قلیل مدتی حفاظتی حکمت عملی کا مقصد ایک جنگی وقفہ پیدا کرنا ہے تاکہ اس طرح طالبان اور ان کے حامیوں کے سامنے سیاسی تصفیہ، انصاف پسندی اور پائیدار امن پر مبنی حل پیش کرنا ممکن ہو۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں، ہماری فوجی حکمت عملی کا مقصد تعطل ہے۔ کیوں کہ ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ عسکری فتح کی بجائے سیاسی تصفیہ ہی پائیدار حل ہے۔‘
اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ’ہم ان تمام مفروضوں اور طریقہ ہائے کار پر فوری نظر ثانی تجویز کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہمیں امن عمل میں موجودہ تعطل دیکھنا پڑ رہا ہے۔ اس کا مقصد الزام تراشی نہیں بلکہ سیاسی حل کی طرف پیش رفت تیز کرنا ہے۔‘
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ اگر طالبان بزور طاقت افغانستان میں اقتدار پر قابض ہوئے اور عوام کے حقوق کا احترام نہ کیا تو افغانستان تنہا رہ جائے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ’ایسا افغانستان جو اپنے عوام کے حقوق کا احترام نہیں کرے گا جو اپنے عوام کے خلاف مظالم کے گا ایک تنہا ملک ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں میں طالبان کی کارروائیوں کے دوران ’مظالم‘ کی اطلاعات تشویش ناک ہیں۔ ان کے مطابق ایسی اطلاعات طالبان کی ملک کے حوالے سے نیت کا کوئی اچھا تاثر پیش نہیں کرتیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ بہت حد تک افغانستان میں افغان حکومت کی مدد میں مصروف عمل رہے گا اور ہم مختلف شعبوں میں مدد فراہم کر رہے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کی مدد بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ ہم افغانستان میں بامعنی مذاکرات اور تنازعے کے پر امن حل کے لیے فریقین کے ساتھ سفارتی کوششون میں بھی شامل رہیں گے۔
امریکی وزیر خارجہ کے مطابق ’طالبان کا کہنا ہے کہ وہ بین الااقوامی طور پر قبولیت چاہتے ہیں اور افغانستان کے لیے عالمی حمایت کے خواہاں ہیں۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ ان کے رہنماؤں کو دنیا بھر میں پابندیاں اٹھانے کے بعد آزادی سے سفر کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ لیکن ملک پر بزور طاقت قبضہ کرنا اور عوام کے حقوق کے خلاف ورزی کرنا وہ راستہ نہیں جس سے یہ مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔‘
انٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ ’صرف ایک راستہ ہے جو کہ میز پر تنازعات کو پر امن انداز میں حل کرنا ہے۔ ایسا افغانستان جس کی حکومت میں سب شامل ہوں اور اس میں تمام لوگوں کی نمائندگی شامل ہو۔‘
یاد رہے امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن ان دنوں بھارت کا دورہ کر رہے ہیں جہاں ان کی بھارت کے اعلی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
افغانستان کی سرزمین کو دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے: طالبان کی چین کو یقین دہانی
چین نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین مشرقی ترکستان اسلامی پارٹی کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں، جس کے جواب میں افغان طالبان نے چین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو دوسرے ملک کے خلاف سازشوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
چینی دفتر خارجہ کے ترجمان زاؤ لیجیان کا اپنی پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ افغان طالبان مشرقی ترکستان اسلامی پارٹی سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے ایک لائن کھینچیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ طالبان ایسے گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کریں گے۔
یاد رہے افغان طالبان کا ایک وفد طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں چین کا دورہ کر رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق طالبان ترجمان محمد نعیم نے بدھ کو بتایا کہ چینی حکام سے مذاکرات کے لیے طالبان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد چین میں موجود ہے۔
اس نو رکنی وفد کی سربراہی طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر کر رہے ہیں۔
محمد نعیم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’امارات اسلامی نے چین کو یقین دلایا ہے کہ افغان سرمین کسی ملک کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’چین نے بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور مسائل کے حل اور امن کے قیام میں معاونت کرے گا۔‘
خیال رہے کہ امریکی فوج کے انخلا کا اعلان ہوتے ہی طالبان نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں قبضے شروع کر دیے ہیں جن میں پاک افغان سرحد اور چین کی سرحد سے متصل کچھ علاقے شامل ہیں۔
افغانستان میں جاری بحران کو پر امن طریقے سے حل کرنے کے پاکستان، روس، چین سمیت مختلف ممالک کوششیں کر رہے ہیں۔
محمد نعیم نے، جو خود بھی وفد کا حصہ ہیں، بتایا کہ دو روزہ دورے کے پہلے دن وفد نے چینی وزیر خارجہ وانگ ای سے ملاقات کی اور یہ ملاقات تیانجن شہر میں ہوئی۔
خیال رہے کہ افغان سرزمین کے کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے کا بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب کچھ دن قبل عسکریت پسندوں نے چین کے علاقے سنکیانگ سے ملحقہ صوبہ بدخشاں کے ضلعے واکھان پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا۔
افغانستان کا بحران: روس نے تاجکستان کو اضافی ہتھیار دینے کا بندوبست کر لیا
روس نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اپنے اتحادی ملک تاجکستان کو ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق تاس نیوز ایجنسی نے بدھ کو رپورٹ کیا کہ روسی وزیر دفاع سرگئی شوگو نے کہا کہ ان کا ملک تاجکستان کو ہر قسم کی معاونت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ افغانستان سے 20 سال بعد امریکی افواج کے انخلا کے پس منظر میں روس پہلے ہی تاجکستان کو اضافی ہتھیاروں کی فراہمی کا بندوبست کرچکا ہے جبکہ تاجک فوج کی تربیت کا سلسلہ جاری ہے۔
دشمن کا ’پروپیگینڈا‘ پھیلانے کے الزام میں چار صحافی گرفتار
افغانستان میں حکام نے منگل کو بتایا کہ سرکاری خفیہ ادارے نے طالبان کے زیر قبضہ سرحدی قصبے کا دورہ کرنے کے الزام میں چار صحافیوں کو گرفتار کیا ہے اور ان پر دشمن کا ’پروپیگینڈا‘ پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔
ان چار افغان شہریوں کو اس ماہ کے اوائل میں طالبان کے قبضے میں پاکستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہ سپن بولدک سے پیر کو واپس آنے کے بعد قندھار میں حراست میں لیا گیا تھا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ صحافی حکومتی اطلاعات کی تحقیقات کر رہے تھے کہ طالبان نے قصبے میں عام شہریوں کا قتل عام کیا ہے یا نہیں۔ طالبان کسی قتل عام سے انکار کرتے ہیں۔
وزارت داخلہ کے ترجمان میراویس ستانکزئی نے ایک بیان میں کہا کہ دہشت گردوں کے حق میں اور افغانستان کے قومی مفاد کے خلاف کسی بھی قسم کا پروپیگینڈا جرم ہے۔ سکیورٹی ادارے اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں افغان میڈیا واچ ڈاگ Nai کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو افغانستان کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے حکم پر گرفتار کیا گیا ہے۔
افغانستان اور پاکستان امریکہ کی ناکام پالیسی بھگت رہے ہیں، وزیر اطلاعات
پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے پاک افغان یوتھ فورم کے زیر اہتمام پاک افغان میڈیا کانکلیو سے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے لوگ ایک دوسرے سے تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے تعلقات میں تناؤ بھی رہا، محبت بھی، ہمارے تعلقات اونچ نیچ کے باوجود آج بھی مستحکم ہیں، یہی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناﺅ کی کیفیت تاریخ کا جبر تھا، روس اور امریکہ نے کابل پر قبضہ کیا لیکن اس کے نتائج ہم نے بھگتے، القاعدہ نے نیویارک میں کارروائی کی، افغانستان کے اندر صورتحال خراب ہوئی اور نتائج ہمیں بھگتنا پڑے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ افغانستان میں امریکہ کی پالیسی ناکام ہوئی تو اس کے نتائج افغانستان اور پاکستان دونوں بھگت رہے ہیں، 1988ء میں جب افغانستان میں بحران ختم ہوا تو یو ایس ایس آر اور امریکہ وہاں سے چلے گئے لیکن سارا بوجھ پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کو برداشت کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کے لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھے، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی، پاکستان کی یونیورسٹیوں میں چھ ہزار کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں، آج یہ بچے خود بتا رہے ہیں کہ پاکستان نے انہیں مواقع فراہم کیے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اگر افغانستان کے حالات پھر خراب ہوتے ہیں تو اس سے پناہ گزینوں کا ایک اور بحران پیدا ہوگا، ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں، اس بارے میں ہمارا نکتہ نظر واضح ہے۔
انہوں نے کہا کہ مستحکم افغانستان کے ذریعے پورے خطے کو وسطی ایشیاءاور یورپ سے ملانا وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے، ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں استحکام آئے اور اس کے نتیجے میں ہم گوادر سے لے کر ازبکستان تک ٹریک بچھا سکیں۔
فوادہ چوہدری کہتے ہیں کہ افغانستان میں کوئی گروپ تنہا حکمرانی نہیں کر سکتا، تمام گروپ مل بیٹھ کر افغانستان میں ایک متفقہ حکومت بنانے کی کوشش کریں، ہم سہولت فراہم کر سکتے ہیں لیکن مسائل افغانستان کے لوگوں کو خود حل کرنا ہوں گے، ہمارا کردار محدود ہے۔