افغانستان میں اخباری اطلاعات کے مطابق ’شیعہ موبلائزیشن‘ کے نام سے ایک نئے ایرانی گروپ کے ابھرنے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے افغان سرکاری عہدے داروں نے کہا ہے کہ تہران، افغانستان میں ’سازش، انتشار کو ہوا دینے اور ملک میں جاری خانہ جنگی پر تیل چھڑکنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
العربیہ اردو کے مطابق افغان وزارت انٹیلیجنس اینڈ کلچر کے نگران اور ہوابازی کے سابق سربراہ ڈاکٹر قاسم وفائی زادہ نے ایک ٹویٹ پیغام میں زور دے کر کہا ہے کہ افغانستان میں ایک نئی شیعہ ملیشیا کا اعلان ایک طرح کی سازش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت اس اقدام کے ساتھ وسیع تر جنگ کی جنگ جاری رکھے گی پیچیدہ ماحول تیار کر رہی ہے۔
دولت ایران با این نوع توطیه و شایعه سازی ابعاد جنگ را گسترده تر و پیچیده تر می سازد. تحریک کردن تهدیدات امنیتی علیه مردم افغانستان، آتشی بر می افروزد که دامن ایران را نیز می گیرد.
— Dr. Qasim Wafayezada (@MQasimWafayezad) July 19, 2021
چنین گروهک های مزدور و ابزار دست بیگانگان جایی در میان مردم افغانستان ندارند! pic.twitter.com/aLcJqjrP61
انہوں نے مزید کہا کہ افغان عوام کے خلاف سکیورٹی خطرات کو ہوا دینے سے وہ آگ بھڑک اٹھے گی جس سے خود ایران بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ ٹویٹ کے مطابق افغان عہدے دار نے مزید کہا کہ اس طرح کے اجرتی گروہوں اور غیر ملکیوں کے آلہ کاروں کا افغان عوام میں کوئی مقام نہیں ہے۔
افغان صدر کے ایک سینیئر مشیر شاہ حسین مرتضوی نے کہا کہ یہ گروپ ایک طرح کی ایران کی چالاکی ہے۔ ’ایران دہشت گرد طالبان تحریک کی شبیہ کو خوش نما بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف ملک میں بغاوت کو ہوا دے رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان شام، یمن، عراق اور لبنان کے تجربات کو کبھی نہیں دہرائے گا۔ افغانستان عالم اسلام میں مختلف مذہبی فرقوں کو قبول کرنے کا ایک نمونہ ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ ایران کی افغانستان میں انتشار پھیلانے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔
افغانستان کے صدر کے سابق قانونی مشیر عبدالعلی محمدی نے کہا کہ ایران جو کچھ کر رہا ہے وہ ہمسایہ ممالک کے خلاف ایک سازش اور فریب ہے۔ انہوں نے پڑوسی ملکوں پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے خلاف سازشوں سے باز آئیں۔
عالمی اور افغان ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایران افغانستان میں شام میں لڑنے والی فاطمیون ملیشیا کی طرز پر ایک نئی عسکری تنظیم قائم کرچکا ہے جس کا مقصد طالبان کے خلاف لڑنا ہے۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس شدت پسند طالبان تحریک کے خلاف توازن تلاش کرنے کی طاقت اور صلاحیت موجود ہے اور وہ افغانستان میں استحکام لا سکتا ہے۔
ایران کے ایک مقامی اخبار نے افغانستان میں اس نئی ملیشیا کے قیام کا انکشاف کیا جسے ’شیعہ موبلائزیشن‘ یا ’الحشد الشیعی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ تنظیم بظاہر شدت پسند طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اخبار کے مطابق ایرانی ملیشیا حال ہی میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شیعہ محلوں میں نمودار ہوئی ہے اور وہ طالبان سے لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔
اس کے ساتھ نئی تنظیم ایران کے حمایت یافتہ ایک اور افغان دھڑے میں شامل ہو گئی جو ’فاطمیون بریگیڈ‘ کے نام سے پہلے ہی شہرت پا چکی ہے۔ فاطمیون ملیشیا ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کی سمندر پار کارروائیوں کی ذمہ دار ’فورس‘ سے مالی، مادی اور عسکری مدد حاصل کرتی ہے۔
فاطمیون ملیشیا کے جنگجوؤں نے شام کی جنگ میں بھرپور حصہ لیا تھا۔
وزیر خارجہ جواد ظریف اس تنظیم کے بارے میں خدشات کو کم کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک افغان ٹی وی چینل کو بتایا کہ بریگیڈ کے جنگجوؤں کی تعداد 5 ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ افواج کے لیے ایک معاون فورس کے طور پر داعش جیسے گروپوں سے لڑ سکتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل العربیہ اردو پر شائع ہو چکی ہے۔