امریکہ کے سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینتھ مکینزی نے جولائی کے آخری ہفتے میں افغانستان میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ حالیہ دنوں میں امریکہ نے افغانستان سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری میں اضافہ کیا ہے اور یہ فضائی کارروائیاں جاری رہیں گی۔
تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کمانڈر مکینزی نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا یہ فضائی بمباری امریکی افواج کے انخلا، جو 31 اگست کو مکمل ہو گا، کے بعد بھی جاری رہے گی یا نہیں۔
دوسری جانب افغانستان حکومت نے اس بیان پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور افغان حکومت سمجھتی ہے کہ امریکہ کی طرف سے فضائی حملوں سے افغان سکیورٹی فورسز کا مورال بڑھے گا۔
حالیہ دنوں میں افغانستان میں امریکی فضائی کارروائیوں پر طالبان کی جانب سے بھی شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور افغان طالبان کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں فضائی کارروائی کر کے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
تاہم مبصرین سمجھتے ہیں کہ امریکہ خطے میں افغانستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کے لیے مناسب اڈے ڈھونڈ رہا ہے۔
افغاستان میں امریکی مشن کے کمانڈر جنرل سکاٹ ملر کے جانے کے بعد افغانستان میں امریکہ کی فضائی کارروائی کی ذمہ داری میرین کمانڈر جنرل مکینزی کے سپرد کی جائے گی، جو آج کل امریکی ریاست فلوریڈا میں موجود ہیں۔
امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد بحریہ کے ریئر ایڈمرل پیٹر واسلی افغانستان میں امریکی سفارت خانے کے سکیورٹی مشن کے سربراہ ہوں گے، جن کے پاس وائٹ ہاؤس کے ایک اعلامیے کے مطابق 650 امریکی فوجی مستقل طور پر رہیں گے تاکہ ڈپلومیٹک مشن کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے واضح کیا ہے کہ وہ افغانستان میں داعش اور القاعدہ سمیت شدت پسند گروپوں کی نگرانی کریں گے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ ان شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کا حق بھی رکھتے ہیں جو امریکہ کے لیے خطرہ ہوں گے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا 95 فیصد مکمل ہو چکا ہے، جو 31 اگست تک مکمل ہو جائے گا، تاہم امریکہ نے واضح الفاظ میں یہ نہیں بتایا ہے کہ افغانستان میں امریکہ فضائی حملوں کو جاری رکھے گا یا نہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر پاکستان سمیت افغانستان کے ہمسایہ ممالک امریکہ کو فضائی اڈے فراہم نہ کریں تو امریکہ کے پاس ایسے کون سے آپشن موجود ہیں، جس سے وہ افغانستان میں فضائی حملے جاری رکھ سکے گا۔
افغانستان کے ہمسایہ ممالک پاکستان، ایران، چین، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان میں اس وقت امریکہ کا کوئی فضائی اڈہ موجود نہیں ہے تاہم مبصرین سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو ان ممالک میں سے کسی ملک کا انتخاب کرنا پڑے گا، جہاں سے وہ فضائی کارروائی کر سکے۔
قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ سیاسیات و بین الاقوامی تعلقات کے شعبے سے منسلک پروفیسر ظفر نواز جسپال دفاعی امور اور جنگی معاملات میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ صورت حال میں امریکہ کے پاس ایک اہم آپشن بحرین میں ان کی نیوی سینٹرل کمانڈ کی موجودگی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بحرین میں امریکہ کی نیول فورسز سینٹرل کمانڈ موجود ہے جہاں سے وہ افغانستان میں فضائی حملے تو کر سکتے ہیں لیکن فضائی حملوں میں استعمال ہونے والے جہازوں کو پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنا پڑے گا۔
جسپال نے بتایا: ’اب پاکستان نے یہ تو کہا ہے کہ وہ امریکہ کو افغانستان میں فضائی حملے کرنے کے لیے اڈے نہیں دے گا، لیکن اگر خلیجی ممالک سے وہ افغانستان پر حملے کریں تو پاکستان کی فضائی حدود استعمال کریں گے اور شاید پاکستان کے پاس اتنی ٹیکنالوجی نہیں ہو گی کہ وہ اتنی اونچی اڑان بھرنے والے جنگی جہازوں کو انٹر سیپٹ کر سکے۔‘
بحرین میں امریکہ کی نیول فورسز کی سینٹرل کمانڈ کو 5TH FLEET کہا جاتا ہے جو تقریباً 25 لاکھ مربع میل کے سمندری احاطے میں آپریشن کرتی ہے، جس میں بحیرہ عرب، بحیرہ احمر، خلیج عمان کا سمندر اور بحیرہ ہند کے کچھ حصے شامل ہیں۔
ظفر نواز نے مزید کہا: ’امریکہ کے پاس ایک آپشن بھارت کا بھی موجود ہے کہ وہ بھارت سے سری نگر میں واقع فضائی اڈے مانگ کر وہاں سے افغانستان پر فضائی حملے کرسکے لیکن اس صورت میں بھی امریکی جنگی جہازوں کو پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنا ہوگا اور پاکستان بھارتی زمین سے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں حملے برداشت نہیں کرے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’پاکستان نے امریکہ کو واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ وہ افغانستان میں فضائی حملوں کے لیے اڈے دے گا اور نہ ہی کسی قسم کی معلومات شیئر کرے گا، لہٰذا امریکہ بہت احتیاط سے فضائی حملوں کا آپشن استعمال کرے گا کیونکہ اس سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ہو گی۔‘
تاہم پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت سے وابستہ ڈاکٹر سید عرفان اشرف، جنہوں نے دفاعی امور کے حوالے سے درجنوں تحقیقی مقالے بھی لکھے ہیں، سمجھتے ہیں کہ پاکستان اگرچہ امریکہ کو اڈے نہ دینے کا اعلان کر چکا ہے لیکن پھر بھی اگر امریکہ نے پاکستان پر دباؤ ڈالا تو اسلام آباد کے پاس اڈے دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
عرفان اشرف نے بتایا: ’امریکہ کے پاس پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے مختلف حربے موجود ہے۔ آج بھی اگر وہ آئی ایم ایف کو کہے کہ پاکستان کو امداد دینا بند کر دے تو مالیاتی ادارہ کبھی بھی امریکہ کو انکار نہیں کرے گا اور اگر اڈے نہ بھی دیں تو امریکہ بحرہ ہند سے افغانستان پر فضائی حملے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر سکتا ہے۔‘
ظفر نواز اور عرفان اشرف دونوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کے پاس ازبکستان سے افغانستان پر فضائی حملوں کا آپشن بھی موجود ہے تاہم ظفر نواز کے مطابق امریکہ اور روس کے مابین تعلقات اتنے اچھے نہیں ہیں جس کی وجہ سے ابھی تک امریکہ اس آپشن پر غور نہیں کر رہا۔
ظفر نواز نے بتایا کہ ازبکستان میں روس کے سربراہی میں بننے والی آزاد ممالک کی ایک دولت مشترکہ قائم ہے، جو ملٹری افئیرز سمیت مختلف معاملات پر ایک دوسرے سے مشورے لیتے ہیں۔
انھوں نے بتایا: ’امریکہ کو ازبکستان یا وسطی ایشیا کے کسی بھی ملک کو فضائی حملوں کے لیے استعمال کرنے سے پہلے روس سے اجازت لینے پڑی گی اور ان کی اجازت کے بغیر وہ وسطی ایشیا کے کسی بھی ملک سے افغانستان میں فضائی کارروائی نہیں کرسکتا۔‘
وسطی ایشیا میں کون سا ملک اڈے دے سکتا ہے؟
امریکہ نے جب 2001 میں افغانستان میں اپنی فوج بھیجی تو سب سے پہلے فضائی حملے ازبکستان اور ترکمانستان کے فضائی اڈوں سے کیے گئے۔ ازبکستان کا فضائی اڈہ 2005 میں روس اور چین کے دباؤ کی وجہ سے بند کرنا پڑا جبکہ ترکمانستان میں ان کا فضائی اڈہ 2014 تک موجود تھا لیکن اس کے بعد وہ اڈہ بھی بند کرنا پڑا۔
تیمور عمر چین اور وسطی ایشیا ممالک کے سیاسی امور کے ماہر ہیں اور روس کے کارنیج ماسکو سینٹر میں ریسرچ فیلو ہیں، جنھوں نے وسطی ایشیا اور چین کے معاملات پر بہت سے تحقیق مقاملے بھی لکھے ہیں۔
کارنیج سینٹر دنیا کے 25 ممالک کے محققین پر مشتمل ایک مرکز ہے جو دنیا بھر میں امن کے حوالے سے کام کرتا ہے۔ تیمور عمر نے اسی سینٹر کے ایک تحقیق مقالے بعنوان ’کیا امریکہ کے لیے وسطی ایشیا ممالک میں فضائی اڈے کے لیے جگہ موجود ہے؟ ‘ میں لکھا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے انخلا کا اعلان تو کیا ہے لیکن امریکہ کا ارادہ ہے کہ وہ افغانستان کو طالبان کے خلاف فضائی مدد فراہم کر سکے جس کے لیے ممکنہ طور امریکہ کو وسطی ایشیا کے ممالک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
تیمور کے مطابق: ’2001 سے لے کر 2014 تک وسطی ایشیا ممالک میں امریکی فوجی موجود تھے لیکن اس کے بعد بہت کچھ بدل گیا ہے جس میں بالخصوص امریکہ کے دو اہم ممالک چین اور روس کے ساتھ خراب تعلقات کا کردار ہے اور یہ دونوں ممالک کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ امریکہ وسطی ایشیا کے خطے میں دوبارہ پنجے گاڑ سکے۔ ‘
انھوں نے لکھا: ’امریکہ اب یہی سوچے گا کہ وسطی ایشیا کے ممالک میں کون سے ملک کو معاشی یا سیاسی فائدہ دے کر وہاں پنجے گاڑ سکے اور یہ فائدہ اتنا زیادہ ہو کہ اس کی وجہ سے وسطی ایشیا کا کوئی بھی ملک چین اور روس کو ناراض کرنے کے لیے راضی ہو جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیمور نے افغانستان کے چھ ہمسایہ ممالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ان چھ میں سے پاکستان، ایران اور چین کو پہلے سے ہی نکال دیں(کیونکہ ان کی طرف سے اڈے دینا مشکل ہے) جبکہ ترکمانستان اور قازقستان کے لیے بھی مشکل ہے کہ وہ روس کے ساتھ اتحاد سے نکل جائیں۔‘ اب تیمور کے مطابق امریکہ کے پاس صرف دو ہی آپشن بچتے ہیں، جن میں ازبکستان اور تاجکستان شامل ہے اور امریکی میڈیا کے مطابق امریکہ کی نظریں بھی ان ہی دو ممالک پر ہیں جہاں وہ مستقبل میں فضائی اڈے قائم کر سکے۔ تاہم اسی مقالے کے مطابق تاجکستان کی معشیت کا زیادہ تر انحصار روس میں کام کرنے والے تاجک لوگوں پر ہے۔
تاجکستان کی جی ڈی پی کا 22 فیصد حصہ روس میں تاجک لوگوں کے کام کرنے کا مرہون منت ہے جبکہ تاجکستان کی معیشت میں 20 فیصد سے زائد قرضہ چین کی طرف سے دیا گیا ہے۔ تحقیقی مقالے کے مطابق تاجکستان کے کل قرضوں کے حجم میں 52 حصہ چین کا ہے جبکہ وسطی ایشیا کے ممالک میں امریکہ کے ساتھ سب سے کم تعلقات تاجکستان کے ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صدر ایمو مالی رحمان اس حطے کے واحد رہنما ہیں، جنھوں نے کبھی بھی امریکہ کا کوئی سرکاری دورہ نہیں کیا ہے۔
تاہم تیمور کے مطابق تاجکستان کے امریکہ کے ساتھ نائن الیون کے بعد ملٹری تعلقات ضرور رہے ہیں، جب امریکہ کے جنگی جہازوں کو تاجکستان کے دوشنبے میں واقع اینی ایئربیس پر تیل بھرنے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ مئی کے شروع میں امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی نے سب سے پہلا دورہ بھی تاجکستان کا ہی کیا تھا۔
تاجکستان کی طرح قازقستان پر بھی امریکہ کی نظر ہے، تاہم تیمور کے تحقیقی مقالے کے مطابق قازقستان کی معشیت بھی چین اور روس کے قرضوں اور وہاں قازقستان کے لوگوں کے کام کرنے پر منحصر ہے جبکہ قازقستان کے امریکہ کے ساتھ بھی ماضی میں اچھے تعلقات رہے ہیں۔
قازقستان میں امریکہ کے فضائی اڈے 2001 سے 2014 تک موجود رہے، تاہم بعد میں روس کے دباؤ کی وجہ سے قازقستان حکومت نے امریکہ کے ساتھ فضائی اڈوں کا معاہدہ ختم کردیا تھا۔
اس ساری صورت حال پر عرفان اشرف کا کہنا تھا کہ ’ امریکہ کے پاس مختلف آپشنز تو موجود ہیں لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ امریکہ اس بات میں سنجیدہ نہیں ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کرے ورنہ اگر امریکہ چاہتا تو وہ بحیرہ ہند سے آسانی کے ساتھ افغانستان میں فضائی کارروائی کر سکتا ہے۔ ‘