انسانوں کو متاثر کرنے والے کرونا وائرس کی اب تک چار اقسام سامنے آ چکی ہیں۔ اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ اس وائرس کی مزید کتنی اقسام سامنے آسکتی ہیں اور دنیا مکمل طور پر اس سے کب چھٹکارا حاصل کر پائے گی۔
کرونا وبا کی اس غیر یقینی صورت حال کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کرونا وائرس تغیر کی صلاحیت رکھتا ہے، لہٰذا طبی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور مرض لگنے کے بعد عقل مندی کے ساتھ اس سے نمٹنا ضروری ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے طبی ماہرین، کرونا وارڈز میں ڈیوٹی انجام دینے والے طبی عملے اور متاثرہ مریضوں کے تیمارداروں سے براہ راست معلومات حاصل کی ہیں تاکہ یہ جانا جاسکے کہ کن احتیاطی تدابیر کے ذریعے کووڈ 19 کے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔
1- فوری احتیاطی تدابیر برتنے میں تاخیر
پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ (ایل آر ایچ) میں کرونا ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر ضیا اللہ خان چمکنی نے بتایا کہ کرونا وائرس علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی جسم کو متاثر کر چکا ہوتا ہے۔ ’عموماً متاثرہ افراد یہ غلطی کر جاتے ہیں کہ وہ صرف علامات ظاہر ہونے کو بیماری کی شروعات سمجھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس غلطی کے سبب وہ ابتدائی دنوں میں فوری طور پر بستر پر آرام کرنا غیر اہم خیال کرتے ہیں جبکہ درحقیقت ابتدا میں مکمل آرام ہی بعد کی پیچیدگیوں سے بچانے کی ضمانت ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ جن مریضوں کو سانس لینے میں دشواری ہو انہیں ہسپتال کا رخ کرتے وقت چلنے پھرنے اور آکسیجن کے بغیر سفر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
2۔ کووڈ ٹیسٹ منفی یا مثبت
طبی ماہرین کے مطابق اکثر لوگ علامات ظاہر ہونے کے بعد ٹیسٹ کروانے میں جلد بازی کرتے ہیں جو منفی آنے کی صورت میں انہیں اپنی صحت کا خیال رکھنے سے غافل کردیتا ہے۔
مریض کسی نارمل شخص کی طرح روزمرہ کے کام سرانجام دیتا ہے اور یوں اس کا مرض شدت اختیار کر لیتا ہے۔
3۔ سیچوریشن لیول
ایک عام شخص کے خون میں آکسیجن کا لیول 97 فیصد سے لے کر 100 فیصد تک ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ضیا اللہ کے مطابق: ’کرونا وائرس کا ہدف انسان کے پھیپھڑے ہیں جن میں بلغم بھر جاتا ہے اور اگر مریض بروقت ضروری اقدامات نہ اٹھائے تو اس کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘
طبی ماہرین کے مطابق کرونا مریض کا سیچوریشن لیول 85 اور 89 فیصد سے نیچے نہیں گرنا چاہیے ورنہ مریض کے اعضا ناکارہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ضیا اللہ کے مطابق: ’دل کی دھڑکن اور فشار خون (بلڈ پریشر) کو قابو میں رکھنا اتنا ہی اہم ہے جتنا سیچوریشن لیول۔ ایک عام انسان کے دل کی دھڑکن 72 سے 90 تک ہونا چاہیے جب کہ کرونا مریض کی دھڑکن اگر 120 تک بھی ہو تو کوئی پریشانی کی بات نہیں، البتہ یہ دھیان رہے کہ اگر سکرین پر سیچوریشن لیول نارمل اور دل کی دھڑکن زیادہ ہو تو یہ کسی مریض کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں کہ ہسپتال میں مریض کے تیماردار کو سکرین پر سیچوریشن لیول اور دھڑکن دونوں پر نظر رکھنی چاہیے اور خطرے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر کو آگاہ کرنا چاہیے۔
4- گھر کی آکسیجن اور ہسپتال کی آکسیجن میں فرق
گھر میں ایک مریض کو دو قسم کی آکسیجن میسر ہوسکتی ہے۔ ایک آکسیجن سیلنڈر اور دوسرا آکسیجن کنسنٹریٹر۔
تاہم پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے کرونا وارڈ میں ڈیوٹی انجام دینے والے ڈاکٹر زاہد کے مطابق مذکورہ دونوں اقسام کا ہسپتال کی آکسیجن کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں۔
’سیلنڈر آکسیجن مریض کو اونچے لیول پر فراہم تو کی جا سکتی ہے لیکن اس کی کیپیسٹی اتنی نہ ہونے کے باعث آکسیجن کسی بھی وقت ختم ہوکر مریض کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔‘
’آکسیجن کنسنٹریٹر بھی ایک مریض کو گھر میں فراہم کیا جاسکتا ہے، لیکن اس میں بھی 10 لیٹر سے زیادہ آکسیجن فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہسپتال کی آکسیجن جو آکسیجن پلانٹ سے مریضوں کو ملتی ہے، وہ 25 لیٹر کی گنجائش رکھتی ہے، جب کہ کرونا مریض کو شدید ضرورت کے وقت 15 لیٹر آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے۔
5۔ فزیو تھراپی کی ضرورت اور اہمیت
ایل آر ایچ کے کرونا کمپلیکس کے طبی ماہرین کے مطابق کرونا وائرس ہونے کی صورت میں فزیو تھراپی کرنا اہم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر ضیا اللہ نے بتایا کہ ’مریض کو پیٹھ کے بل لٹانا موت کو بلاوا دینے کے مترادف ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’ایسے مریض کو اوندھے منہ ماسک کے ساتھ لیٹنا چاہیے تاکہ اس کا بلغم باہر نکلے اور سانس بحال ہو۔‘
’مریض کو کروٹ پر لیٹنا چاہیے جب کہ تیماردار کو سیچوریشن کم ہونے پر مسلسل اس وقت تک پیٹھ پر تھپکیاں دینی چاہییں جب تک اس کی سیچوریشن 85 تک نہ آجائے۔‘
اسی وارڈ کی ایک تیماردار خاتون صالحہ نے بتایا کہ فزیوتھراپی ماہر نے انہیں پیٹھ پر تھپکی دینے کے لیے ہاتھ کا پیالہ بنانے کا طریقہ سمجھایا ہے۔
’اس سے پیٹھ پر زخم بھی نہیں پڑتے، تھراپی ٹھیک طریقے سے ہوجاتی ہے اور مریض خطرے سے باہر آجاتا ہے۔‘
6- آلات کا استعمال اور اس کی مانیٹرنگ
یہ ایک اہم اور چوکس رہنے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اکثر ہسپتال میں مریض کے ساتھ تیماردار لاپرواہی برتتے ہیں یا کم علمی کی وجہ سے آلات و سامان میں پیدا ہونے والی غلطی نہیں جان پاتے۔
کرونا وارڈ کے ایک تیماردار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پرانڈپینڈنٹ اردو کو چند ناکارہ آلات دکھاتے ہوئے بتایا کہ ان کے مریض کی کئی بار طبیعت اس لیے بگڑ گئی کہ ایک مرتبہ ماسک میں سوراخ، ایک مرتبہ ماسک کے ساتھ لگے پائپ میں سوراخ اورایک مرتبہ ’سی پیپ‘ مشین صحیح نہیں لگی تھی۔
’آلات سے ہوا کے اخراج کو چیک کرتے رہنا چاہیے جو کہ آسان ہے۔ ماسک، پائپ، ماسک بیگ کے قریب ہاتھ لے جا کرآکسیجن کے اخراج کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ آکسیجن کے ساتھ لگے ہیومیڈیفائر کا کردار بھی بہت اہم ہے اور اس میں پانی کی کمی یا زیادتی یا پانی کے اخراج سے آکسیجن میں کمی آسکتی ہے۔
’بیڈ کے اوپر لگا ہیومیڈیفائر مریض کو ’چوکنگ‘ سے بچاتا ہے۔ اس کا حلق اور ناک خشک نہیں ہوتا۔ اس میں پانی نہ کم اور نہ زیادہ ڈالنا چاہیے۔ جب بھی پانی بدلنا ہو، انتہائی پھرتی سے کام لیا جائے کیونکہ جتنی دیر کی جائے گی مریض اتنی دیر تک سانس لینے میں دشواری محسوس کرے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ماسک کا ہلنا اور صحیح منہ پر نہ بیٹھنے کی وجہ سے بھی مریض کی آکسیجن میں کمی آسکتی ہے۔ ‘شروع میں ہمیں جو ماسک ملے وہ موزوں نہیں تھے۔ اب ہمیں ہسپتال نے نان ریبریدر (این آر بی) ماسک دیے ہیں، جو ہلتے نہیں۔‘
7- جسمانی وزن کا کردار
جسمانی وزن کا کرونا مرض کی پیچیدگی میں اہم کردار ہے۔ جو لوگ موٹاپے کا شکار ہوں انہیں فزیو تھراپی اور آکسیجن کی فراہمی میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
مزید یہ کہ ایسے مریضوں کو بستر پر زیادہ لیٹنے سے جسم پر زخم آنے کا اندیشہ رہتا ہے۔
ایسے مریض کو کروٹیں بدلوانے میں بھی دشواری ہوتی ہے جو کہ آکسیجن کا لیول برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔