کرونا کی ایک نئی لہر پھر شروع ہوگئی ہے، جو گذشتہ تین لہروں سے زیادہ خطرناک محسوس ہو رہی ہے۔ اموات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، کیسوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، مثبت شرح بڑھتی جاری ہے اور بالآخر بہادر اور نڈر پاکستانی عوام میں خوف بھی پیدا ہو گیا اور بڑھتا جا رہا ہے۔
بڑھتے خوف کا اندازہ کرونا ویکسنیشن سینٹر پر بڑھتے ہوئے رش سے لگایا جاسکتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ پاکستانیوں کو کیا کہوں؟ ڈھیٹ کہوں یا بہادر، یا پھر خطروں کا کھلاڑی۔ مطلب جب سر پر پڑی تو ویکسین کی یاد آئی اور پھر اس بھیڑ میں شامل ہو گئے۔
مطلب یہ کیا طور طریقہ ہے؟ ویکسینشن کا عمل کتنے دنوں سے جاری ہے مگر جب جان پر بنی، سِم بند ہونے کی بات ہوئی یا تنخواہ روکنے کا حکم ہوا تو ویکسین لگوانے دوڑے چلے آئے اور پھر وہ پاکستانی ہی نہیں جو جہالت بھرے ایڈونچر سے دور ہو۔
ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ سمندری طوفان کا خدشہ ہے تو ہم سمندر پر پہنچ جاتے ہیں کہ طوفان کا نظارہ براہ راست کریں گے۔
سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابھی بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کرونا کو حقیقت نہیں مانتے اور جو کرونا کو حقیقت مان گئے ہیں وہ یہودیوں کی سازش مانتے ہیں اور پھر ایک قسم ایسے لوگوں کی ہے جو ویکسین کو فائیو جی چپ، نامردی کا فارمولا اور مسلمانوں پر نظر رکھنے کا منصوبہ سمجھتے ہیں، بلکہ ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن کون سمجھائے ان لوگوں کو، جن کی عقل پر اتنے بڑے بڑے انکشاف کے پردے پڑ گئے ہیں۔
آس پاس لوگ مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، لیکن پھر بھی یقین نہیں آرہا ہے۔ خود بخار یا کھانسی ہونے پر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور دوا لیتے ہیں مگر وہی ڈاکٹر آج ویکسین لگوانے کا کہہ رہا ہے تو خود ڈاکٹر کی بات کو رد کررہے ہیں۔ ان سب سے قطع نظر جب ایس او پیز کی بات کرو تو اس پر بھی عمل نہیں کرنا ہے۔
ماسک اس لیے نہیں لگانا کیونکہ ماسک سے سانس رُکتی ہے، ماسک سے ہمارا حسین چہرہ چھپ جاتا ہے، ماسک سے قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے، گویا ہر بات کی تاویل ہے، لیکن تاویل کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہوتی بس ہوائی باتیں، سنی سنائی باتیں، جس کو پھیلانا واجب ٹھہرتا ہے اور جس کو ماننا ایمان ٹھہرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معلوم ہے اے سی والا چھوٹا کمرہ اس معاملے میں خطرناک ہے لیکن ایک ہی اے سی والےکمرے میں 50، 100 بندہ ہوتا ہے جس سے وائرس تیزی سے پھیلتا ہے لیکن نہ ماسک پہننا ہے اور نہ ہی اے سی سے دور ہونا ہے۔
مطلب وائرس کو بھرپور ویلکم کرنے کا موقع دینا ہے، یعنی کسی قسم کی احتیاط نہیں کرنی اور نہ ہی وائرس کو حقیقت ماننا ہے۔
مجھے بس اتنا بتادیجیے کہ ماسک لگانے سے جاتا کیا ہے؟ پُرہجوم جگہ پر فاصلہ رکھنے سے ہوتا کیا ہے؟ ہاتھ اچھی طرح دھولیں تو مسئلہ کیا ہے؟ یہ احتیاط نہ غیر مذہبی ہے اور نہ یہودی سازش ہے، اس سے تو آپ دوسری بیماریوں سے بھی محفوظ رہیں گے، لیکن نہیں! نہ احتیاط کرنی ہے اور نہ ویکسین لگوانی ہے اور نہ کرونا کو حقیقت ماننا ہے، ہاں البتہ خود ساختہ سازشوں کو سچ ماننا ہے اور اس کو پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے میں پیش پیش رہنا ہے۔
گزارش یہ ہے کہ خدارا سازشوں کے جال سے نکلیں۔ کرونا ایک حقیقت ہے اب اس کو خود ساختہ کہیے یا پھر کچھ بھی، مگر پوری دنیا میں لاکھوں لوگ مرچکے ہیں اور کروڑوں لوگ اس میں مبتلا ہوئے ہیں۔
پاکستان میں بھی ہزاروں بچوں نے اپنے ماں باپ کو اس وبا کے نتیجے میں کھو دیا ہے، لیکن اگر ابھی بھی ذہن میں خناس ہے تو کم سے کم منفی پروپیگنڈے سے باز رہیں، خاموش رہیں اور غلط افواہیں پھیلانے سے دور رہیں۔